سورة النمل - آیت 71

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (عذاب دنیا کا) وعدہ کب آئے گا ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 71سے75) ربط کلام : منکرین آخرت کو ایک اور انداز میں جواب۔ مکہ کے مشرک اس حد تک ہدایت سے بے توفیق ہوئے کہ ان میں ایک شخص نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آکر کسی مردہ کی بوسیدہ ہڈی اپنے ہاتھ سے مسلتے ہوئے بڑے غرور اور تمرد میں آکر کہتا ہے کہ اے محمد بتاؤ کہ اسے کون زندہ کرے گا ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” وہ ہمارے سامنے دلیل دیتا ہے اور اپنی تخلیق بھول گیا ہے۔ کہتا ہے کہ بوسیدہ ہڈیاں کون زندہ کرے گا؟ فرما دیجیے کہ وہی زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ پیدا کرنا جانتا ہے۔“ (یٰس ٓ : 78۔79) اس واضح حقیقت اور ٹھوس دلیل کے باوجود پھر بھی وہ لوگ کہتے تھے کہ محمد (ﷺ) سچے ہو تو قیامت لاؤ یا عذاب کا وعدہ پوراکرو؟ اے پیغمبر! فرمادیجیے کہ جس کی تم جلدی کرتے ہو امید ہے کہ وہ قریب ہی آن پہنچاہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے فضل و کرم کی بناء پر ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ تائب ہوجائیں مگر لوگ ڈھیل سے فائدہ اٹھانے اور مزید مہلت ملنے پر اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے عذاب کے بارے میں جلدی کرتے ہیں۔ حالانکہ جو کچھ لوگ چھپاتے ہیں اور جو وہ اعلانیہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے نہ صرف وہ زمینوں، آسمانوں کے غیب سے واقف ہے بلکہ اس نے ایک کھلی کتاب میں ہر چیز لکھ رکھی ہے۔ گناہ چھپانے یا اعلانیہ کرنے کا ذکر فرما کر لوگوں کو بتلایا ہے کہ عذاب نازل نا کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ ” اللہ تعالیٰ تمہارے جرائم سے ناواقف ہے ہرگز نہیں ! جو کچھ تم لوگوں سے چھپاتے ہو یا جو تم سر عام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے، کیونکہ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے، ناصرف کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں بلکہ سب کچھ اس نے اپنے ہاں کھلی کتاب میں لکھ رکھا ہے۔ اس خطاب میں عسٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ” اُمید“ ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی سے امید ہے۔ اللہ تعالیٰ کے منکر اس لفظ کی غلط توجیہہ کرسکتے تھے۔ اس لیے اسے ” قُلْ“ کہہ کر نبی کریم (ﷺ) کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ کہیں کہ مجھے امید ہے جس عذاب کی تم جلدی کرتے ہو وہ تمھاری بد اعمالیوں کی وجہ سے قریب ہی آن پہنچا ہے۔ چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ اہل مکہ بہت جلد ہر قسم کی ذلّت اور عذاب سے دو چار ہوئے۔ مسائل: 1۔ دلائل سننے اور جاننے کے باوجود منکرین آخرت کہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی ؟ 2۔ لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس کے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر اس لیے فضل کرتا ہے تاکہ لوگ اس کا شکر ادا کریں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید اور لوگوں کے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے۔ 5۔ زمینوں، آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر درج کر رکھی ہے۔