إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰ نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے اب میں وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لاؤنگا یا تمہارے پاس دہکتا ہوا انگارا لاؤں گا شاید تم تاپو
فہم القرآن: (آیت 7سے 9) ربط کلام : پچھلی آیات میں قرآن مجید کے بارے میں شک کرنے اور سرور دو عالم (ﷺ) کی مخالفت کرنے والوں کا انجام ذکر ہوا۔ اب جو انہیں دنیا اور آخرت میں ہوگا اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ بات سورۃ مزمل آیت 15کے حوالہ سے بتلائی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (ﷺ) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان بہت سی مماثلتیں قائم کی ہیں۔ اس لیے موقع محل کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مشکلات اور ان کی قوم کی مخالفت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جس کی یہاں اس طرح ابتداء کی ہے کہ اے نبی ! موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر پر غور فرمائیں۔ جب وہ دس سالہ غریب الوطنی کی زندگی گزار کر اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر کی طرف آرہے تھے۔ راستے میں انھوں نے بھڑکتی ہوئی آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ آپ یہاں ٹھہریں وہ آگ دکھائی دے رہی ہے میں وہاں سے راستے کی معلومات حاصل کرتا ہوں یا آپ کے لیے آگ کا انگارہ لاتاہوں تاکہ آپ اسے تاپ سکیں۔ یہ کہہ کر موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی طرف بڑھے۔ جب اس کے قریب پہنچے تو انھیں آواز دی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! جسے تم آگ سمجھ رہے ہو وہ آگ نہیں بلکہ اللہ کا مبارک نور ہے۔ جس سے اس کے آس پاس کا ماحول روشن اور بابرکت ہوچکا ہے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اللہ تعالیٰ ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ وہی رب العالمین ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو پھر یقین دلایا گیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تجھے آواز دینے والا ” اللہ“ ہے جو ہر بات پر غالب اور حکمت والا ہے۔ مفسرین نے سبحان اللہ کا یہاں یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! یہ بات ہرگز نہ سمجھنا کہ میں درخت میں حلول کرچکا ہوں یا میرا نور اتنا محدود ہے کہ جس نے صرف محدود حلقہ کو گھیررکھا ہے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! نہ میری ذات محدود ہے اور نہ میرا جمال اور کوئی صفت محدود ہے۔ میں تو رب العالمین ہوں۔ میں اس بات پر اختیار رکھتا ہوں کہ اپنی ذات کا پرتو اور اپنے حسن و جمال کی ایک جھلک کو کسی درخت پر مرکوز کر دوں۔ درخت پر تجلی مرکوز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہمہ تن گوش ہو کر اس پر توجہ دے سکیں۔ یقین رکھیں کہ آپ کا رب اپنا ہر فیصلہ نافذ کرنے پر غالب ہے اور اس کا حکم حکمت سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان الفاظ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مستقبل کے حوالے سے کامیابی کی نوید دی گئی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِیزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَینَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ وَالصَّلٰوۃُ نُوْرٌ وَّالصَّدَقَۃُ بُرْھَانٌ وَّالصَّبْرُ ضِیآءٌ وَّالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَیکَ کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْا فَبَآئِعٌ نَفْسَہُ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا۔) [ رواہ : مسلم : باب فضل الوضوء] ” حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘ ” الحمدللہ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” سبحان اللہ“ اور ” الحمدللہ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ نماز روشنی ہے‘ صدقہ دلیل ہے‘ صبر بھی نورہے۔ قرآن مجید تیرے حق میں یا تیرے خلاف حُجّت ہے۔ صبح کو اٹھنے والا ہر شخص اپنے نفس کا سودا کیے ہوتا ہے چاہے تو آزادی حاصل کرے یا چاہے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دے۔“ مسائل : 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین سے واپسی پر راستے میں ایک درخت پر اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اس روشنی کو آگ سمجھتے رہے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی وحی میں بتلا دیا کہ میں ہر کمی کمزوری سے پاک ہوں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رب العالمین، العزیز اور الحکیم کہہ کر اپنا تعارف کروایا۔