كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا
فہم القرآن : (آیت 141 سے 150) ربط کلام : قوم عاد کی تباہی کے بعد قوم ثمود کا دور اور اس کا انجام۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ انھوں نے بھی وہی انداز اختیار فرمایا جو ان سے پہلے انبیاء کرام نے اختیار کیا تھا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور بار بار سمجھایا کہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جو امانت میرے ذمہ لگائی ہے اسے نہایت ذمہ داری اور دیانتداری کے ساتھ من و عن تم تک پہنچا رہا ہوں اور تم میری امانت ودیانت سے واقف ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رسول ہونے کی حیثیت سے میری تابعداری کرو۔ میں اپنی تابعداری اور نبوت کے کام پر تم سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں۔ میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے۔ میں تمھیں اس بات سے متنبہ کرتا ہوں کہ جس کردار کو تم اختیار کیے ہوئے ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہ امن اور سلامتی کا راستہ نہیں اگر تم تائب نہ ہوئے تو یاد رکھو۔ لہلہاتے ہوئے باغ، جاری چشمے، سبز و شاداب کھیتیاں، کھجوروں سے لدے ہوئے باغ، پہاڑوں کو تراش تراش کر بنائے ہوئے محلات تمہیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر میری اطاعت کرو۔ اس قوم کو اصحاب الحجر بھی کہا گیا ہے۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ مسائل : 1۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار اللہ کا خوف دلایا۔ 2۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کی طرح بلامعاوضہ اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور لوگوں کی خدمت کی۔ 3۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ صالح کردار کے سوا۔ دنیا کے اسباب و وسائل مجرموں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے۔ 4۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم زراعت، باغات اور صنعت و حرفت کے اعتبار سے اپنے زمانے کی ترقی یافتہ قوم تھی۔ تفسیر بالقرآن : قوم ثمود کی ترقی کی ایک جھلک : 1۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء 129تا133) 2۔ بڑے بڑے محلات تعمیر کیا کرتے تھے۔ (الاعراف :74)