وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا
اور جب (اے محمد ﷺ) تجھے دیکھتے ہیں تو سوائے ٹھٹھے کے تجھ سے اور کچھ مطلب نہیں رکھتے کیا یہی شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔( ف 2)
فہم القرآن: ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کا رسول معظم (ﷺ) کے ساتھ رویہّ۔ رسول معظم (ﷺ) کی عظیم اور پرخلوص جدوجہد کے باوجود مکہ کے ابتدائی دور میں چند لوگوں کے سوا کوئی شخص آپ پر ایمان نہ لایا۔ ایمان لانے والوں میں ایک دو حضرات کو چھوڑ کر باقی حضرات انتہائی غریب تھے اور کچھ ان میں مکہ والوں کے زرخرید غلام تھے۔ ان حالات کے باوجود نبی معظم (ﷺ) دو ٹوک اور کھلے الفاظ میں اعلان کرتے کہ لوگو! لا الہ الا اللہ پڑھو اور اس کے تقاضے پورے کرو میں تمھیں معاشی خوشحالی، سیاسی اقتدار کی کامیابی اور دنیا و آخرت کی فلاح کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس پر اہل مکہ آپ (ﷺ) کا استہزاء اڑاتے کہ یہ کس قدر ناعاقبت اندیش شخص ہے کہ خود ناکام ہونے کے باوجود لوگوں کو کامیابیوں کی ضمانت دیتا ہے۔ کفار یہ کہہ کر بھی آپ (ﷺ) کو مذاق کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی ہی کسی انقلاب کا ارادہ کیا ہے تو وہ انسان کی بجائے کسی مافوق الفطرۃ ہستی کو رسول منتخب کرتا۔ یا یہ حقیقتاً اللہ کا رسول ہوتا تو اسے دنیا کے وسائل سے سرفراز کیا جاتا۔ اس کی باتیں دیوانے کی بھڑ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ مسائل: 1۔ قیامت کے منکر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو استہزاء کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: گمراہ اقوام کا انبیاء کرام کو مذاق کرنا : 1۔ یقیناً رسولوں کے ساتھ اس سے پہلے بھی مذاق کیا گیا ہے۔ (الرعد :22) 2۔ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کرتے ہو۔ (التوبہ :65) 3۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (الحجر :11) 4۔ افسوس ہے لوگوں پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (یٰس :30) 5۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی نبی مگر وہ ان سے مذاق کرتے تھے۔ (الزخرف :7)