يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے لوگو اپنے رب کی جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا ‘ بندگی کرو ، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ (بچ جاؤ )
فہم القرآن : (آیت 21 سے 22) ربط کلام : ایمانداروں، کفار اور منافقین کے ذکر کے بعد توحید اور عبادت کا بیان ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا مرکزی پیغام ” اللہ“ کی توحید اور اس کی ربوبیت کا اقرار ہے جس کا منطقی نتیجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرنے کے ساتھ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے، دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد کی زبان میں دہراتا ہے کیوں کہ عبادت تین ہی طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ (اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ) (رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ ) ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ عبادت کا جامع تصور: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام : 162تا163) ” کہہ دیجیے! یقیناً میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہبن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام {علیہ السلام}اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ اس تصور عبادت سے ہٹنا مقصد حیات کی نفی اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کا آدمی کو کسی حال میں بھی حق نہیں پہنچتا۔ ایمان، کفر اور نفاق کی بڑی بڑی نشانیاں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز تمام طبقات انسانی کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے اپنی عبادت کے استحقاق کی یہ دلیل دی ہے کہ اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں، تمہارے آباؤ اجداد اور سب لوگوں کو پیدا فرمایا۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو سائبان، پھر آسمان سے پانی نازل کیا جس سے تمہارے رزق کا بندوبست فرمایا۔ یہ سب کچھ ایک رب نے پیدا کیا اور وہی تمہارا خالق و مالک ہے۔ یہ حقائق تم بھی جانتے ہو کہ تخلیقِ کائنات اور ان امور میں اللہ تعالیٰ کا دوسرا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے پھر ایسے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانے کی کس طرح جرأت کرتے ہو ؟ جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں لہٰذا تمہیں صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے۔ توحید ربوبیت اور خالقیت کا شعور دلا کر انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ کسی غیر کی نہیں بلکہ میں اپنے خالق، رازق اور مالک کی ہی عبادت کر رہا ہوں۔ ابتدا میں توحید کے طبعی‘ فطری اور آفاقی دلائل دئیے گئے ہیں تاکہ انسان کو توحید سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی سے قرآن مجید کا آغاز ہوا ہے کیونکہ توحید فطرت کی آواز اور انسان کے ضمیر کی ترجمان ہے۔ ﴿إِقْرَأْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ (العلق :1) ” اپنے پیدا کرنے والے رب کے نام سے پڑھیے۔“ ایک مبلغ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے سامع کے سامنے او لاً ایسی دلیل پیش کرے جس کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں سننے والے کو آسانی ہو۔ لہٰذا یہاں پانچ دلائل ایسے بیان ہوئے ہیں جن کا بدترین منکر بھی انکار نہیں کرسکتا۔ یہاں تخلیق انسانی کے مختلف دلائل دیے جاتے ہیں باقی دلائل کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ ” اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔ پھر اس کو ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس کو نئی صورت بنا دیا۔ اللہ جو سب سے بہترین بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔“ [ المومنون : 12تا14] اَنْدَادًا ” ند“ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ہمسر اور شریک۔ رسول اللہ {ﷺ}نے اس کا سدِّ باب کرنے کے لیے ہر ایسے قول وفعل سے منع فرمایا ہے جس میں شرک کا شائبہ بھی پایا جاتاہو۔ ایک آدمی نے رسول اللہ {ﷺ}سے کہا :” مَاشَآء اللّٰہُ وَشِئْتَ“” جس طرح اللہ اور آپ چاہیں۔“ اس پر آپ نے فرمایا : ” جَعَلْتَ لِلّٰہِ نِدًّا“ ” تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرادیا ہے کہو ” مَا شَآء اللّٰہُ وَحْدَہٗ“ ” جو اللہ اکیلا چاہے۔“ (مسند احمد) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں کا خالق اور پالنے والا ہے۔ سب کو اپنے رب کی عبادت کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ ہی نے زمین کو فرش، آسمان کو چھت بنایا اور وہی آسمان سے بارش نازل کرتا اور ہمارے لیے رزق پیدا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ 4۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ تفسیر بالقرآن : عبادت اور انبیاء {علیہ السلام}کی دعوت : 1۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ (الذّاریات :56) 2۔ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے اور شیطان کی عبادت سے روکتے تھے۔ (الاعراف : 59، 65، 73) 3۔ عبادت کا مفہوم۔ (انعام :163) 4۔ اللہ کی عبادت کرنے میں کامیابی ہے۔ (الحج :77) تخلیق انسانی کے مراحل : 1۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (آل عمران :59) 2۔ حضرت حوا، حضرت آدم {علیہ السلام}سے پیدا ہوئی۔ (النساء :1) 3۔ انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل۔ (المؤمنون : 12تا14) 4۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر :26) 5۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 6۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر۔ (الحج :5) 7۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن :67) 8-کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف :37)