وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ
اور تو کہہ اے رب میں شیطانوں کی چھیڑ سے تیری پناہ مانگتا ہوں (ف ١) ۔
فہم القرآن: (آیت 97 سے 98) ربط کلام : برائی اور غصہ شیطان کی طرف سے ہے اس لیے نبی اکرم (ﷺ) کو دعا سکھلائی گئی کہ شیطان سے اپنے رب کی حفاظت طلب کیا کریں۔ شیطان داعی کو انگیخت دیتا ہے کہ وہ غصہ میں آکر برائی کا جواب برائی سے دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ داعی کو پوری کوشش کرنا چاہیے کہ وہ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دے۔ جہاں تک ذاتی معاملات کا تعلق ہے اس میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ مظلوم ظالم کے جواب میں کوئی بری بات زبان پر لے آئے۔ تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ( المائدہ : آیت148) لیکن تبلیغ کے میدان میں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ برائی کا جواب برائی سے دیا جائے بلکہ حکم ہے کہ اگر ایسے موقع پر طیش آئے تو شیطان کی انگیخت سے اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے۔ کیونکہ شیطان چاہتا ہے مبلغ برائی کے مقابلے میں بری زبان استعمال کرکے ناکام ہوجائے اس نقصان سے بچانے کے لیے سرور دو عالم (ﷺ) کو یہ دعا سکھلائی گئی۔ (رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَات الشَّیَاطِینِ ) ” میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتاہوں“ (عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ صُرَدٍ قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) وَنَحْنُ عِنْدَہُ جُلُوْسٌ وَّاَحَدُھُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہُ مُغْضَبًا قَدِ احْمَرَّ وَجْھُہُ فَقَال النَّبِیُّ (ﷺ) اِنِّیْ لَاَعْلَمُ کَلِمَۃً لَّوْ قَالَھَا لَذَھَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ اَعُوْذُ باللّٰہِ مِن الشَّےْطٰنِ الرَّجِیْمِ فَقَالُوْا للرَّجُلِ لَا تَسْمَعُ مَا یَقُوْلُ النَّبِیُّ (ﷺ) قَالَ اِنِّیْ لَسْتُ بِمَجْنُوْنٍ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ] حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کی موجودگی میں دوشخص گالم گلوچ پر اتر آئے ہم بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک شخص کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ وہ اپنے ساتھی کو برابھلا کہہ رہاتھا۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے وہ کلمہ یہ ہے۔ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ اس پر صحابہ کرام (رض) نے اس کو متوجہ کیا۔ کیا نبی کریم (ﷺ) کا فرمان نہیں سن رہا؟ اس نے جواب دیا میں پاگل نہیں ہوں۔ اس کی مراد یہ تھی کہ میں نے سن لیا اور اس پر عمل کرتا ہوں۔ (عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) کَانَ مَعَ إِحْدَی نِسَائِہِ فَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ فَدَعَاہُ فَجَاءَ فَقَالَ یَا فُلاَنُ ہَذِہِ زَوْجَتِی فُلاَنَۃُ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ کُنْتُ أَظُنُّ بِہِ فَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ بِکَ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِی مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ)[ رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّہُ یُسْتَحَبُّ لِمَنْ رُئِیَ خَالِیًا بامْرَأَۃٍ وَکَانَتْ زَوْجَۃً أَوْ مَحْرَمًا لَہُ أَنْ یَقُولَ ہَذِہِ فُلاَنَۃُ لِیَدْفَعَ ظَنَّ السَّوْءِ بِہِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) اپنی بیویوں میں سے کسی کے ساتھ کھڑے تھے وہاں سے ایک آدمی کا گذر ہوا آپ نے فرمایا اے فلاں آدمی یہ میری فلاں بیوی ہے اس نے عرض کی آپ کے متعلق کون ایسا گمان کرسکتا ہے اور نہ ہی میں نے ایسا سوچا تھا۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا شیطان خون کی گردش کی طرح آدمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔“ مسائل: 1۔ شیطان انسان کا دشمن ہے اس سے بچنے کے لیے اپنے رب کی پناہ مانگنا چاہیے۔ 2۔ شیطان انسان کو غصہ دلاتا ہے۔ 3۔ شیطان انسان کے دل میں برے خیالات ڈالتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: شیطان کی شیطنت اور اس سے بچنے کی دعائیں : 1۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف :42) 2۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا۔ (البقرۃ :36) 3۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈال دیا۔ (یوسف :100) 4۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف :5) 5۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر :6) (أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ ) (وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بِا للّٰہ)