سورة المؤمنون - آیت 91

مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خدا نے کوئی بیٹا نہیں لیا ، اور نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے ، اگر یوں ہوتا تو ہر معبود اپنی اپنی مخلوق علیحدہ لے بیٹھتا ، اور ایک ایک پر (ف ١) ۔ چڑھائی کرتا ، اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو وہ بناتے ہیں ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 91 سے 92) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اپنی بادشاہت اور اختیارات کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اب اپنی ذات کے حوالے سے بتلا یا اور سمجھایا ہے کہ ذات کے اعتبار سے بھی کوئی اس کا ہم سر اور شریک نہیں ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں۔ سورۃ المائدہ آیت 75میں عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان الفاظ میں سمجھایا کہ ابن مریم ( علیہ السلام) صرف اللہ کا رسول ہے اس سے پہلے رسول گزر چکے اس کی والدہ مریم کردار اور گفتار کے لحاظ سے صدیقہ تھی وہ ماں، بیٹا کھانا کھاتے تھے۔ توجہ فرمائیں کہ ہم ان لوگوں کے لیے اپنے دلائل کس طرح واضح کرتے ہیں تاکہ اس پر غور کریں کہ اس کے باوجود لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور عقلی دلیل کے ذریعے یہ بات سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور نہ ہی زمین و آسمان میں اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ موجود ہے۔ اگر کوئی اور دو الٰہ ہوتے تو وہ اپنی مخلوق کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے پر یلغار کرتے یہی صورت حال اللہ کی اولاد ہونے کی صورت میں پیدا ہوتی۔ اس کا ایک بیٹا زیادہ سے زیادہ اختیار لینے کی کوشش کرتا اور اس کے مقابلے میں دوسرا اپنے اختیارات اور اپنی عوام میں اضافے کے درپے ہوتا۔ اس طرح یہ کائنات کئی حصوں میں تقسیم ہوجاتی۔ کیونکہ جس کی اولاد ہوتی ہے اس کا ایک وقت پر کمزور اور ضعیف ہونا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد کی ضرورت اور ہر قسم کے تعاون سے مبرّا اور پاک ہے وہ ہر غائب اور ظاہر کو جاننے والا اور اپنی ذات، صفات اور بادشاہی کے حوالے سے بلندوبالا اور ہرقسم کی شراکت اور معاونت سے منزہ اور پاک ہے۔ مسائل: 1۔ اگر ” اللہ“ کے علاوہ اور الٰہ ہوتے تو وہ اپنی اپنی مخلوق کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ کرنے کی کوشش کرتے۔ 2۔ اگر ایک سے زیادہ الٰہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے پر یلغار کرتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے لوگوں کے شرکیہ اور کفریہ عقیدہ اور کلمات سے پاک ہے۔ تفسیر بالقرآن: الٰہ ایک ہی ہے : 1۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ (البقرۃ:163) 2۔ تمھارا الٰہ ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل :22) 3۔ آپ (ﷺ) فرما دیں میں تمھاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف :110) 4۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ :98) 5۔ آپ (ﷺ) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء :108) 6۔ تمھارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج :34) 7۔ ہمارا الٰہ اور تمھارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت :46) 8۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جسے میں تلاش کروں۔ (الاعراف :140) 9۔ اللہ ہی الٰہ ہے وہی اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ ( الانعام :101) 10۔ کوئی اور الٰہ نہ بناؤ الٰہ تو ایک ہی ہے (النحل :51) 11۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ:73) 12۔ اعلان کردیں اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام :19)