قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
تو پوچھ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر شے کی حکومت ہے ، اور وہ بچا لیتا ہے ، اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا اگر جانتے ہو تو بتاؤ ؟ (ف ١) ۔
فہم القرآن: (آیت 88 سے 90) ربط کلام : مشرکوں سے استفسار کا سلسلہ جاری ہے۔ سروردوعالم (ﷺ) کو پھر حکم ہوا کہ آپ مشرکین سے استفسار فرمائیں کہ کسے ہر چیز پر اختیار اور اقتدار حاصل ہے؟ جو سب کو پناہ دینے والا ہے اسے کسی کی پناہ کی ضرورت نہیں اگر اس حقیقت کو جانتے ہو تو اس کا جواب دو؟ وہ ضرور جواب دیں گے کہ ہر چیز پر صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہے۔ انہیں فرمائیں کہ اس کے باوجود تم ” اللہ“ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہو کیا تمہیں جادو ہوگیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس عقیدہ توحید کے ٹھوس اور حقیقت پر مبنی دلائل پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مشرک جھوٹ بولتے ہیں۔ عقیدہ توحید کے اس قدر ٹھوس اور مبنی برحقیقت دلائل ہیں کہ حددرجے کا مشرک بھی ان کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن اس کے باوجود مشرک جھوٹے اور بے بنیاد دلائل دینے سے باز نہیں آتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا دنیا میں سب سے بڑا جھوٹ ہے لیکن مشرک جھوٹے عقیدہ اور جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا۔ اس لیے ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا تمہیں جادو ہوگیا ہے؟ جس وجہ سے عقیدہ توحید تمہیں سمجھ نہیں آتا۔ عربی زبان میں سحر کا معنٰی ہے ایسا علم یا عمل جس سے دیکھنے والے کو کوئی چیز حقیقت کے خلاف نظر آئے۔ ” مَلَکُوْتُ“ سپر ڈگری کا لفظ ہے جس کا معنٰی ہے بادشاہی اور کسی چیز کا مالک ہونا گویا کہ ہر دور کا مشرک یہ ماننے پر مجبور ہے کہ سدا بہار بادشاہی اور حقیقی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہی ہر کسی کو پناہ دینے والا ہے اسے کسی کی پناہ کی حاجت نہیں۔ (عَنِ الْبَرَآءِ ابْنِ عَازِبٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِذَا اٰوٰی اِلٰی فِرَاشِہٖ نَامَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَیْمَنِ ثُمَّ قَالَ (اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَوَجَّھْتُ وَجْھِی اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلیْکَ وَاَلْجَأْتُ ظَہْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَّرَھْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیکَ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ قَالَھُنَّ ثُمَّ مَاتَ تَحْتَ لَیْلَتِہٖ مَاتَ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَفِیْ رِوَایۃٍٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِرَجُلٍ یَّا فُلَانُ اِذَا اَوَیْتَ اِلٰی فِرَاشِکَ فَتَوَضَّأْ وُضُوْءَٓکَ للصَّلٰوۃِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلٰی شِقِّکَ الْاَیْمَنِ ثُمَّ قُلِ (اللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ اِلٰی قَوْلِہٖ اَرْسَلْتَ) وَقَالَ فَاِنْ مُتَّ مِنْ لَّےْلَتِکَ مُتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَاِنْ اَصْبَحْتَ اَصَبْتَ خَیْرًا۔) [ رواہ البخاری : باب اذا بات طاہرا] حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) اپنے بستر پر لیٹے تو دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھتے۔ ” ہمارے معبود حقیقی! تیری طرف رغبت کے ساتھ اور تجھ سے ڈرتے ہوئے میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی‘ اپنا چہرہ تیری ہی طرف کرلیا‘ اپنے کام تیرے حوالے کیے، اور تجھ پر بھروسہ کیا“ تیری جائے پناہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ میں تیری نازل کردہ کتاب اور تیرے بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لایا“ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو شخص یہ کلمات کہے اگر اسی رات مر جائے تو اس کی موت اسلام پر ہوگی۔ دوسری روایت میں ہے رسول اکرم (ﷺ) نے ایک شخص کا نام لے کر فرمایا جب تو اپنے بستر پر جائے تو وضو کرلے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے پھر دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا کرو ” میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی نبی پر ایمان لایا۔“ اگر تو اس رات مر جائے تو فطرت کی موت مرے گا اور اگر صبح کرے تو تجھے خیروبرکت حاصل ہوگی۔“ مسائل: 1۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ 2۔ جسے اللہ اپنی پناہ میں لے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ 3۔ کفار بھی اللہ کی الوہیّت کے اقراری تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام برحق ہے۔