سورة المؤمنون - آیت 81

بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کوئی نہیں یہ وہی بات کہتے ہیں جو پہلے لوگ کہہ گئے ہیں ،

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 81 سے 83) ربط کلام : آیت 70میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول کو پاگل پن ہوگیا ہے اس کے بعد نبی (ﷺ) کو تسلّی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے جس کو یہ بوجھ سمجھتے ہوں لہٰذا آپ دعوت توحید کا کام جاری رکھیں یہ لوگ وہی کچھ کہہ رہیں جو ان سے پہلے لوگ کہا کرتے تھے۔ انسان موت وحیات اور لیل ونہار کی گردش پر غور کرے تو اسے خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت انسان کو اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ کیونکہ جو رب رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لاتا ہے وہی انسان کو قیامت کے دن زندہ کرے گا جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں وہ وہی بات کرتے ہیں جو ان سے پہلے لوگ کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں ختم ہوجائیں گی کیا ہم پھر اٹھائے جائیں گے ؟ یہ وہی وعدہ ہے جو ہمارے آباؤ واجداد کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا۔ لیکن اب تک ان میں سے کوئی ایک بھی دوبارہ زندہ نہیں ہوا۔ درحقیقت یہ پہلے زمانے کی قصہ کہانیاں ہیں جو ہمیں بار بار سنائی جاتی ہیں۔ اسی فکر کی بنیاد پر ایک آدمی نبی اکرم (ﷺ) کے سامنے آکر ہاتھ میں لیے ہوئے ایک بوسیدہ ہڈی مسلتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد (ﷺ) ! تم کہتے ہو کہ مردے زندہ ہونگے بتاؤ اس ہڈی سے کس طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے؟ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ ﴿وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِیْ اَنشَاَہَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِِذَا اَنْتُمْ مِنْہُ تُوقِدُوْنَ اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلٰی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ﴾[ یٰسٓ: 78۔81] ” اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا۔ کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس ( کی شاخوں کو رگڑ کر اُن) سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے کیوں نہیں اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے منکر ہمیشہ ایک جیسی باتیں کیا کرتے ہیں۔ 2۔ قیامت کے منکر قیامت برپا ہونے کے دلائل کو قصہ کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کی کیفیت اور اس کے برپا ہونے کے دلائل : 1۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا ملے۔ (طہٰ:15) 2۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج :1) 3۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس :56) 4۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن :16) 5۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ :281) 6۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار :19) 7۔ قیامت کے دن اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان :26) 8۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی طرح آجائے گی۔ (النحل :77) 9۔ قیامت کے دن ہر کسی کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (آل عمران :185) 10۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف :21) 11۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج :55) 12۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان :11)