ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ
پھر ہم نے اسے قرار گاہ استوار میں نطفہ بنایا ۔
فہم القرآن: ربط کلام : آدم کی تخلیق کا دوسرا مرحلہ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آسمان اور ستارے کی قسم کھا کر انسان کو توجہ دلائی ہے کہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنا چاہیے کہ اسے کس طرح پیدا کیا گیا ہے۔ انسان اچھل کر نکلنے والے پانی کے قطرہ سے پیدا کیا گیا ہے یہ اچھل کر نکلنے والا قطرہ کہاں سے نکلتا ہے اس کی وضاحت فرمائی کہ یہ مرد کی پشت اور عورت کی چھاتی کی ہڈیوں سے نکلتا ہے پھر عورت کے رحم میں مخصوص جگہ پہنچ کر ایک مدت تک ٹھہرجاتا ہے۔ علم الجنین (embryology) کی رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنین (Foetus) کے اندر’’ انثیین ‘‘ (Testes) یعنی وہ غدود جن سے مادّۂ منویہ پیدا ہوتا ہے، ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں۔ جہاں سے بعد میں یہ آہستہ آہستہ فوطوں میں اتر جاتے ہیں۔ یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کا منبع ہمیشہ وہی مقام (بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ) ہی رہتا ہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery) پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اس طرح حقیقت میں ’’ انثیین ‘‘پیٹھ ہی کا جز ہیں جو جسم کا زیادہ درجۂ حرارت برداشت نہ کرنے کی وجہ سے فوطوں میں منتقل کردیے گئے ہیں۔ علاوہ بریں مادۂ منویہ اگرچہ ’’ انثیین ‘‘پیدا کرتے ہیں اور وہ کیسۂ منویہ (Seminal vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک ( بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ) ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی رو جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger action) سے کیسۂ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن : تفسیر سورۃ طارق)