سورة الحج - آیت 26

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے خانہ کعبہ کا ٹھکانا درست کردیا ، (اور کہا) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر ، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کیلئے اور قیام اور رکوع سجود کرنے والوں کے لئے پاک کر ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : بیت اللہ کی تعمیر نو اور اس کے چاروں طرف تعمیر ہونے والی مسجد حرام کے آداب اور حقوق۔ تاریخ کعبۃ اللہ حافظ ابن حجر عسقلانی (رض) نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی اساس حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں رکھی گئی اور فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اس جگہ کی نشاندہی کی جسے بعدازاں طوفان نوح اور ہزاروں سال کے حوادث نے بے نشان کردیا تھا۔ البتہ بیت اللہ کے کچھ نشان باقی تھے جن پر حضرت ابر اہیم (علیہ السلام) نے بنیاد رکھی تھی۔ یہی وہ مقام بنیاد ہے جس کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے : اور یہی وہ مقام ہے جس کا ذکر حضرت خلیل (علیہ السلام) نے حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اسماعیل (علیہ السلام) کو یہاں چھوڑتے وقت کیا تھا : ﴿رَبَّنَا إِنِّیْ أسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ﴾ [ ابراہیم :37] ” اے ہمارے رب ! میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تبلیغ دین کے لیے اردن‘ شام اور حجاز مقدس کو پیغامِ حق کا مرکز بنایا اور گاہے گاہے ان مراکز کا دورہ کرتے اور ہدایات دیتے رہتے تھے۔ اس طرح آپ حسب حکمِ الٰہی ہاجرہ علیہا السلام اور اسماعیل (علیہ السلام) کی خبر گیری کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اسی اثناء میں تعمیر کعبہ کا حکم ہوا جس کی تفصیل نبی رحمت (ﷺ) نے یوں بیان فرمائی ہے : (ثُمَّ لَبِثَ عَنْھُمْ مَّا شَاء اللّٰہُ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِکَ وَإسْمَاعِیْلُ یُبْرِئُ نَبَلًالَہٗ تَحْتَ دَوْحَۃٍ قَرِیْباً مِنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَاٰہٗ قَامَ إِلَیْہِ فَصَنَعَا کَمَا یَصْنَعُ الْوَالِدُ بالْوَلَدِ ثُّمَ قَالَ یَا إِسْمَاعِیْلُ إنَّ اللّٰہَ أمَرَنِیْ أَنْ اَبْنِیَ ھٰھُنَا بَیْتًا وَأشَارَ إِلٰی اَکْمَۃٍ مُرْتَفِعَۃٍ عَلٰی مَا حَوْلَھَا قَالَ فَعِنْدَ ذٰلِکَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ فَجَعَلَ إسْمَاعِیْلُ یَأْتِیْ بالْحِجَارَۃِ وَ إبْرَاھِیْمُ یَبْنِیْ حتّٰی إِذَا إِرْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَآءَ بِھٰذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَہٗ لَہَ فَقَامَ عَلَیْہِ وَھُوَ یَبْنِیْ وَإِسْمَاعِیْلُ یُنَاوِلُہُ الْحِجَارَۃً) [ رواہ البخاری : باب (یَزِفُّونَ) النَّسَلاَنُ فِی الْمَشْیِ] ” جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے ملک (فلسطین) میں ٹھہرے رہے اس کے بعد جب اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ جب اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے والد محترم کو دیکھا تو اٹھ کر استقبال کیا دونوں اسطرح ملے جس طرح باپ بیٹے سے ملتا ہے ابراہیم (علیہ السلام) فرمانے لگے : بیٹا ! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس اونچی جگہ پر بیت اللہ تعمیر کروں اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کی میں حاضرِخدمت ہوں۔ نبی اکرم (ﷺ) ارشاد فرما تے ہیں اسی جگہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل ( علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) پتھر لاتے جا رہے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر فرما رہے تھے۔ جب دیواریں اونچی ہوگئیں یعنی زمین پر کھڑے ہو کر پتھر لگانا مشکل ہوگیا تو جبرائیل (علیہ السلام) پتھر لے کر آئے جس کو مقام ابراہیم کہا جاتا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پتھر پر چڑھ کر کعبہ کی تکمیل فرمائی اور اسماعیل (علیہ السلام) معاونت کرتے رہے۔“ ﴿وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ إِسْمَاعیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ [ البقرۃ:127] ” اور یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل گھر (بیت اللہ) کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے اے ہمارے پرو ردگار! ہماری یہ خدمت قبول فرما۔ تو سب کی سننے اور جاننے والا ہے۔“ کعبۃ اللہ کی عظمت و فضیلت : اس جہان رنگ وبو میں بے شمار خوبصورت سے خوبصورت ترین عمارات ومحلات موجود ہیں جن کے حسن وجمال میں اضافہ کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے لگائے گئے اور مزیدخرچ کیے جارہے ہیں۔ ان کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن کوئی ایسی جگہ یا عمارت نہیں جس کے دیدار کو اہل جہاں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو اور جس کے لیے اتنی دنیا کے دل تڑپتے ہوں۔ یہ اکرام ومقام صرف ایک عمارت کو نصیب ہوا جس کو عام پتھروں سے اٹھایا گیا ہے، اللہ رب العزت نے اسے بیت اللہ قرار دیا ہے۔ مرکز ملت اسلامیہ : اسے قبلہ بنا کر ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا ہے تاکہ جس طرح ان کے احساسات و جذبات کا رخ ایک ہی طرف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف اسی طرح ان کا جسمانی زاویہ بھی ایک ہی رخ اختیار کرے تاکہ ملت کی مرکزیت قائم رہ سکے : ﴿وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ﴾ [ البقرۃ:150] ” اور جہاں سے نکلیں تو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور مسلمانو! تم جہاں بھی ہو مسجد حرام کی طرف منہ کرلو۔“ بیت اللہ میں حاضری کے آداب اور احرام کا فلسفہ : حج اور عمرہ کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ بیت اللہ میں حاضری دینے والے اپنے روز مرہ کے لباس میں آنے کی بجائے فقیرانہ لباس میں حاضرہوں جو کفن سے مشابہت رکھتا ہے۔ رب کریم کا کرم ہے کہ اس نے موسم اور لوگوں کی کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے گھروں سے احرام باندھنے کا حکم دینے کی بجائے میقات یعنی حدود حرم مقرر فرمائے تاکہ یہاں پہنچ کر زائرروزمرہ کا لباس اتار کر اپنے اپ کو دو چادروں میں لپیٹ لے۔ وہ قیمتی لباس جس کے رنگ ڈھنگ اور ڈیزائن پر یہ اترایا کرتا تھا، وہ دستار فضیلت جس کو سر پر سجاتے ہوئے سر بلند کیا کرتا تھا، وہ کیپ جو کمانڈرانچیف ہونے کی علامت تھی، وہ تاج جو بادشاہی کی جلالت وتمکنت کا نشان تھا یکایک اس کواتارنے کا حکم ہوا اور اب بندہ مؤمن عاجزی کا پیکر بن چکا ہے۔ یہاں واقعتا شاہ و گدا ایک ہی مقام اور انداز میں کھڑے ہیں، حکم ہوا کہ اس وقت تک قدم آگے نہ اٹھنے پائیں جب تک اپنی زبان سے اللہ کے حضور پیشی اور اس کی بلا شرکت غیرے بادشاہی اور اس کی نعمتوں کا برملا اعتراف نہ کرلیا جائے پھر یہ حاضری اور تلبیہ اس صدا کا جواب ہے جو ہزاروں سال پہلے معمار کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہاڑ کی چوٹی پرکھڑے ہو کردی تھی : حرم کو پاک صاف رکھنے کا صرف یہ معنٰی نہیں کہ اس کو کوڑے کرکٹ سے پاک صاف رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اصل صفائی یہ ہے کہ اس کو شرک کی گندگی سے محفوظ رکھا جائے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں واضح ارشاد موجود ہے کہ مشرک کو حرم میں داخل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ مشرک روحانی طور پر گندہ اور پلید ہوتا ہے۔ (التوبہ :28) نبی محترم (ﷺ) نے مکہ فتح کیا تو تمام بتوں کو مسمار کرتے ہوئے ان تصویروں کو بھی مٹادیا جو مشرکین نے دیواروں پر ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی بنا رکھی تھیں۔ ( رواہ البخاری : باب أَیْنَ رَکَزَ النَّبِیُّ () الرَّایَۃَ یَوْمَ الْفَتْحِ) مسائل: 1۔ کعبۃ اللہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا۔ 2۔ بیت اللہ توحید کا مرکز اور ترجمان ہے۔ اس میں شرکیہ کام نہیں ہونے چاہئیں۔ 3۔ بیت اللہ طواف، قیام، رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: بیت اللہ کے آداب : 1۔ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھا جائے۔ (الحج :26) 2۔ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لے پاک صاف رکھیں۔ (البقرۃ:12) 3۔ کفار کے ساتھ مسجد حرام کے پاس لڑائی نہ کرو۔ (البقرۃ: ١٩١) ٤۔ مشرک پلید ہے وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔ (لتوبہ :28)