سورة الحج - آیت 17

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو مسلمان ہوئے ، اور جو یہود ہوئے ، اور صابئیں ، اور نصارے ، اور مجوس ، اور جو مشرک (عرب کے) ہیں ، اللہ قیامت کے دن ان میں فیصلہ کرے گا ۔ اللہ ہر شئے پر حاضر ہے (ف ٣) ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اس آیت سے قبل اور ما بعد توحید باری تعالیٰ کا ذکر ہے اس لیے تمام مذہبی طبقات کو مخاطب کر کے انتباہ کیا گیا ہے کہ سب کے درمیان ” اللہ“ ہی فیصلہ صادر فرمائے گا۔ کہ کس کس نے ” اللہ“ کی توحید اور اس کے احکام کا انکار کیا اور کس نے اس کی توحید کو مانا اور شرک سے اجتناب کیا۔ اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کے ذکر کے ساتھ پانچ فرقوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو اس لیے یہودی کہلواتے ہیں کہ وہ اپنی نسبت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے یہودہ کی طرف کرتے ہیں۔ صائبین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو زرتشت کے پیروکار کہتے ہیں۔ جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر تھے۔ عرف عام میں نصاریٰ عیسائیوں کو کہا جاتا ہے تاہم عیسائیوں میں ایک مخصوص فرقہ کا نام بھی نصاریٰ ہے۔ مجوسی وہ لوگ ہیں جو آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ زمین و آسمان کے نظام کو چلانے والے دو خدا ہیں ایک کا نام اھرمن ہے جو نقصان پہنچانے پر اختیار رکھتا ہے دوسرے کا نام یزداں ہے جو خیر و برکت کا مالک ہے۔ مشرک کا بنیادی طور پر کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر علاقے اور زمانے کے لوگ مختلف معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر ان کے سامنے رکوع و سجود کرنے کے ساتھ ساتھ نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ ان مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان شدید اختلافات ہیں لیکن تمام مذاہب کے پیروکار ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف متحدرہے ہیں۔ بالخصوص یہودی اور مشرک مسلمانوں کی مخالفت کرنے میں ہمیشہ سے پیش پیش ہیں۔ دنیا میں ” اللہ“ کی توحید کی مخالفت اور شرک کی حمایت میں جو چاہے اور جس طرح چاہے تاویلات کرتا پھرے بالآخر قیامت کے دن سب کے درمیان رب ذوالجلال ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے نظریات اور اعمال کو پوری طرح جانتا اور باخبر ہے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے عقائد اور اعمال درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی نیت اور اس کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیربالقرآن: قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا : 1۔ بے شک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس :93) 2۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل :78) 3۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج :69) 4۔ اللہ قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء :47) 5۔ اللہ عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن :20) 6۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو تم اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر :3) 7۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور کافر مومنوں پر برتری نہیں پائیں گے۔ (النساء :141) 8۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادے۔ اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس :109)