يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ
اللہ کے سوا اسے پکارتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچا سکے اور نہ نفع ، یہی پرلے درجہ کی گمراہی ہے (ف ١) ۔
فہم القرآن: (آیت 12 سے 13) ربط کلام : انسان جب اپنے رب کی بندگی چھوڑتا ہے تو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور جگہ جگہ ماتھا ٹیکتا ہے۔ مشرک اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے رب سے مانگنے اور اس کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ عجلت پسندی کی وجہ سے ان کو پکارتا ہے جو نفع ونقصان پہچانے پر قدرت نہیں رکھتی۔ جلد باز اور مفاد پرست طبیعت کی وجہ سے مشرک اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ جس مزار یا بت کے سامنے اپنی حاجت پیش کررہا ہے وہ تو اسے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ یہ فکر و عمل اس قدر گمراہ کن ہے کہ آدمی ہدایت قبول کرنا تو درکنار حق بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا یہ عمل اس بات کی گواہی ہے کہ یہ شخص گمراہی میں بہت دور جا چکا ہے۔ ایسے شخص کو شعور نہیں ہوتا کہ جس کو پکار رہا ہے وہ تو فائدے کی بجائے اس کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے کیونکہ یہ اپنے فائدے کی خاطر اسے پکارتا ہے وہ فائدہ تو پہنچا نہیں سکتے البتہ یہ فائدے کی بجائے ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔ وہ فائدے کی بجائے اپنے آپ کا نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا انجام انتہائی بھیانک ہوگا۔ بہت ہی برا عقیدہ اور سہارا ہے جس کو مشرک نے اپنا یا ہے۔ جس انسان کا یہ فکر و عمل ہوجائے اس کو اللہ تعالیٰ کی بجائے دوسروں پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مشکل کشا سمجھنے والا شخص فائدے کی بجائے نقصان کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ جن پر مشرک بھروسہ کرتا ہے۔ وہ برا مولیٰ وہ برا ساتھی ہے، مشرک ایک کی بجائے کئی مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے، لیکن یہاں جمع کی بجائے واحد کا لفظ لایا گیا ہے۔ کیونکہ مشرک کے عقیدہ کا محرک اور سبب شیطان ہوتا ہے اس لیے بتلایا ہے۔ حقیقی خیر خواہی کی بجائے شیطان بد ترین خیر خواہی کرنے والا اور برا ساتھی ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ] ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (ﷺ) جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو یہ پڑھتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین خلاء کے برابر اور اس کے بعد جس قدر وسعتیں ہیں تو جس قدر چاہتا ہے، تمام تعریفات کا تو ہی لائق ہے اور بزرگی کا سب سے زیادہ تو حقدار ہے جو تعریف اور عظمت بندے بیان کرتے ہیں ہم تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء کر دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں تجھ سے بڑھ کر کسی کی عظمت نہیں، تیری عظمت سے بڑھ کر کسی کی عظمت فائدہ نہیں دے سکتی۔“ (عَنْ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ (رض) قَالَ عَلَّمَنِی رَسُول اللَّہِ (ﷺ) کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِی الْوِتْرِ إِنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی عَلَیْکَ وَإِنَّہُ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ) [ رواہ ابوداود : باب الْقُنُوتِ فِی الْوِتْرِ] ” حضرت حسن بن علی (رض)‘ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے وتر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھلائی الٰہی بے شک تو فیصلہ کرتا ہے تیرے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا جس کا تو دوست بن جائے اور جس کے ساتھ تو دشمنی رکھے اس کو کوئی عزت نہیں دے سکتا۔“ مسائل: 1۔ مشرک ان کو پکارتا ہے جو نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا دوسروں کو پکارنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : 1۔ فرما دیجیے جن کو تم معبود تصور کرتے ہو ان کو بلا کردیکھو کیا وہ تمہاری تکلیف دور کرنے پر اختیار رکھتے ہیں؟ (بنی اسرائیل :107) 2۔ اللہ کے سوا ان کو پکارو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (یونس :106) 3۔ کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ (الانبیاء :66) 4۔ فرما دیجیے میں بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : 188، یونس :49)