سورة الأنبياء - آیت 95

وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کیا ، ممکن نہیں کہ وہ ہمارے پاس لوٹ کر نہ آئیں (ف ٢) ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 95 سے 97) ربط کلام : صالح اعمال کرنے والوں کی قدر افزائی کا تذکرہ کرنے کے بعد برے لوگوں کے انجام کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں بھی سزا دی اور قیامت کے دن بھی سزا پائیں گے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو مختلف الفاظ اور انداز میں کئی بار واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی، اس کی مہربانی میں کوئی شخص رکاوٹ نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس کی گرفت سے کوئی کسی کو چھڑا سکتا ہے۔ جب وہ کسی بستی یا قوم کو تباہی کے گھاٹ اتارتا ہے تو پھر کوئی نہیں جو اسے دنیا میں واپس لے آئے۔ اسی حقیقت کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ جب وہ کسی بستی کو اس کے جرائم کی پاداش میں تباہ کرتا ہے تو پھر اسے کوئی واپس نہیں لاسکتا۔ یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے۔ اس کا یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے کہ تباہ وبرباد ہونے والے لوگ دین کی طرف پلٹنے اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے نہ تھے۔ یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج نکل آئیں گویا کہ قیامت قائم ہوجائے۔ یاد رہے کہ قیامت کی تین قسم کی نشانیاں قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ جن میں کچھ نشانیاں وہ ہیں جو نبی (ﷺ) کی حیات مبارکہ تک پوری ہوچکی ہیں۔ جن میں ایک نشانی چاند کا دو ٹکڑے ہونا ہے۔ ان نشانیوں کا دوسرا حصہ نبی اکرم (ﷺ) کی حیات مبارکہ کے بعد شروع ہوتا ہے جس کی انتہاء کا تعیّن کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ قیامت کی نشانیوں کا تیسرا حصہ وہ ہوگا جس دور میں یا جوج ماجوج نمودار ہوں گے۔ جن کی تفصیل کے لیے سورۃ الکہف کی آیت 94کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یا جوج ماجوج ہر اونچی جگہ سے یلغار کرتے ہوئے لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یا جوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت قریب تر ہوجائے گی اور اس کا برپا ہونا برحق ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ قیامت اس قدر اچانک برپا ہوگی کہ ” اللہ“ کے منکروں اور باغیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ قیامت کی ہولناکیاں دیکھ کر کافر اور نافرمان لوگ آہ و زاریاں کرتے ہوئے کہیں گے ہائے افسوس! ہم اپنی غفلت کی وجہ سے فسق و فجور میں مبتلا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ قیامت کا برپا ہونا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ () قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ () بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ () فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ () لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ)[ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (ﷺ) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخری نشانی آگ یمن کے علاقہ عدن سے رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو موت دے یا کسی بستی تباہ کر دے اسے کوئی زندہ کرنے والا نہیں 2۔ یاجوج ماجوج ہر طرف دنگا و فساد کریں گے۔ 3۔ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وقت بالکل قریب آجائے گا۔ 4۔ جب قیامت برپا ہوگی تو لوگ چیخ و پکار کرتے ہوئے اپنے جرائم کا اعتراف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کی نشانیاں اور اس کی ہولناکیوں کا ایک منظر : 1۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس :56) 2۔ قیامت کے دن لوگ مدہوش ہونگے۔ ( الحج :2) 3۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ :281) 4۔ قیامت آنکھ جھپکنے میں آجائے گی۔ (النحل :77) 5۔ قیامت کی ہولناکیاں بڑی سخت ہوں گی۔ (الحج :1) 6۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم :49) 7۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ: 30۔31) 8۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف :47)