فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ
سو جو کوئی نیک عمل کرے گا ، اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوگا تو اس کی کوشش نامقبول نہ ہوگی اور ہم اس کو لکھتے ہیں (ف ١) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : اختلافات سے بچ کر نیک اعمال کرنے والوں کی جزا انبیاء (علیہ السلام) اور حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر کرنے کے بعد ہر انسان کے لیے یہ اصول واضح کردیا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنے رب کے برگزیدہ بندے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑے بڑے مراتب سے سرفراز فرمایا تھا۔ لیکن جو شخص بھی عقیدہ توحید پر رہتے ہوئے نیک اعمال کرے گا اس کے کسی نیک عمل کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے نیک آدمی کی ہر نیکی لکھی جا رہی ہے۔ لکھنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے ہاں مومن کی نیکی کی کتنی قدر ہے۔ سورۃ النساء آیت ١٤٧ میں یہ فرمایا کہ لوگو! تمھیں عذاب دینے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اگر تم اس پر صحیح صحیح ایمان لاؤ اور اس کے شکر گزار بندے بن کر رہو تو اللہ تمھارے ہر نیک عمل کی قدر کرنے والا اور اسے پوری طرح جاننے والا ہے۔ سورۃ الزلزال میں ارشاد فرمایا۔ جس نے رائی کے برابر نیکی یا برائی کی قیامت کے دن وہ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّیِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِیْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا یُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : باب الصَّدَقَۃِ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشتا ہے اور اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے۔ اس کو اس طرح بڑھاتا ہے جس طرح تم بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہر مومن کے نیک اعمال لکھ رہا ہے۔ 2۔ مومن کے کسی نیک عمل کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔