قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
ہم نے کہا ، اے آگ ابراہیم (علیہ السلام) پر ٹھنڈک اور سل امتی ہوجا ۔ (ف ١) ۔
فہم القرآن : (آیت 69 سے 70) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں قوم اور حکومت کا انتہائی اقدام : ابھی خاص وعام کے ساتھ یہ کشمکش جاری تھی کہ حکومت وقت نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا۔ جب حاکم وقت نمرود کے پاس مکمل رپورٹ پہنچی تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ چنانچہ اسے فکر لاحق ہوئی کہ ابراہیم (علیہ السلام) بتوں کی خدائی کا انکار کرتا ہے تو میری خدائی کب تسلیم کرتا ہوگا۔ فوراً حکم صادر کیا کہ ابراہیم جہاں کہیں ہو، اسے فی الفور میرے حضور میں پیش کیا جائے۔ باپ، رشتہ دار، پوری قوم یہ چاہتی تھی یہ تحریک دب جائے اور اس کے داعی کو عبرت ناک سزا سے دو چار کیا جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حاکم وقت کے سامنے جاتے ہیں۔ حاکم وقت نے حاکمانہ لب ولہجے میں پوچھا اے ابراہیم ! ہمارے ہوتے ہوئے تم کسی اور کو بھی رب مانتے ہو ؟ ابراہیم (علیہ السلام) بھرپور اعتماد سے فرمانے لگے! ہاں میں زمین و آسمان میں صرف اور صرف ایک ذات کو رب مانتا ہوں۔ اس کے بغیر سب مجبور ومحکوم ہیں۔ سب کا خالق ومالک ” اللہ“ ہے۔ تو بھی اسی طرح کا ایک انسان ہے جس طرح ہم انسان ہیں نمرود چونک اٹھا، کرسی پر اکڑتے ہوئے گردن اٹھا کر بولا۔ ہاں ہاں تو میرے بغیر بھی کسی کو خدا مانتا ہے۔ فوراً اپنے رب کے اوصاف بیان کرو ورنہ تیری ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مکالمہ : ” کیا آپ نے اس شخص کے بارے میں غور نہیں کیا ؟ جو ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑ رہا تھا۔ اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے ؟ اس وجہ کہ اللہ نے اس کو حکومت سے نوازا تھا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ بادشاہ کہنے لگازندگی اور موت میرے اختیار میں بھی ہے۔ ابراہیم نے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال لاؤ۔ کافر ششدر رہ گیا۔ اللہ ایسے ظالموں کو کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔“ [ البقرۃ:258] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ بے وقوف بادشاہ لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے لہٰذا انہوں نے اس دلیل کی لطافت کو سمجھانے کی بجائے فورا ایسی دلیل دی جس سے کوئی مغالطہ نہیں دیا جا سکتا تھا۔ فرمایا کہ میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے تو اسکو مغرب سے طلوع کر کے دکھا۔ یہ سوال سنتے ہی وہ ششدررہ گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بادشاہ اطاعت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا۔ لیکن اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام کو قابو رکھنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جو ہر دور میں ظالم اور فاسق حکمران کیا کرتے ہیں۔ امن عامہ کے تحت گرفتاری : فوراً حکم دیا کہ امن عامہ کے تحت اسے گرفتار کرلیا جائے۔ چنانچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر اس کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا بالفاظ دیگر باپ، عوام اور حکمران بھی سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اسکو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔” اگر اپنے خداؤں کو بچانا چاہتے ہو تو فوراً اس کو زندہ جلا دو۔“ [ الانبیاء :38] شاہی کونسل کا فیصلہ : ﴿قَالُوا ابْنُوْا لَہُ بُنْیَانًا فَأَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ﴾ [ الصّٰفٰت :97] ” اس کے لیے ایک بڑا گہرا قلعہ بناؤ اس کو آگ سے بھر کر اس کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو۔“ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذ بات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھیں۔ اگر فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں پھینکوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے۔ کہ عراق کی سرزمین پر آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ جب آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی وسیع آگ میں کس طرح پھینکا جائے۔ شا ہی کو نسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کس طرح پھینکا جائے ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی مشین تیار کئی جائے جس میں جھو لادے کر آگ کے درمیان میں پھینکا جائے لہٰذا اس طرح ہی کیا گیا۔ اُف خدا یا کیسا منظر ہے جو آج تک تیرے فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ نظر اٹھائی تو جبرا ئیل (علیہ السلام) نمو دار ہوئے۔ روح الا میں عرض کرتے ہیں جناب میں حا ضر ہوں کوئی خد مت ہو تو فرمائیں۔ ابرا ہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ کو رب العزت کی طرف سے حکم ہے جبریل (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں کہ نہیں۔ کہا پھر جاؤ مجھے آپ کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ” حَسْبِیَ اللّٰہ“ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا۔ اب کا رروائی زمین پر نہیں عرش پر ہوگی۔ : چنانچہ حکم ہوا کہ اے آگ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی والی ہوجا۔ تفسیر ابن ابی حا تم میں ہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) چا لیس دن تک آگ میں رہے۔ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے جتنا آرام میں نے چالیس دن آگ کے اندر پا یا ساری زندگی اتنا آرام میسر نہیں آیا۔ یاد رہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو آگ میں برہنہ کرکے پھینکا گیا تھا۔ ” وَأَوَّلُ مَنْ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاہِیم“ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ قیا مت کے دن جس خوش نصیب کو سب سے پہلے جنت کا لباس پہنایا جائے گا وہ ابرا ہیم (علیہ السلام) ہوں گے۔[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والا بنا دیا۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو انھوں نے جلا دینے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں ناکام کردیا۔