ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَيْنَاهُمْ وَمَن نَّشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ
پھر ہم نے ان سے سچا وعدہ کیا سو انہیں اور جسے چاہا بچا لیا ، اور مسرفوں کو ہلاک کیا ۔
فہم القرآن : (آیت 9 سے 10) ربط کلام : حق کا انکار کرنے والوں کو انبیائے کرام عذاب الٰہی کی وعید سناتے۔ جسے منکرین جھوٹ قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام پر عذاب نازل کرکے انبیاء کے وعدہ کو سچ کر دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو عذاب سے نجات دی اور منکرین حق کو تباہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے جو کتاب نازل کی ہے اس میں عبرت کے طور پر پہلی اقوام کی بربادی اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی کامیابی کا ذکر موجود ہے بشرطیکہ لوگ عقل سے کام لیں۔ اگر لوگ عقل استعمال کریں گے تو یقیناً نصیحت پاجائیں گے۔ کچھ مفسرین نے ﴿ ذِکْرِکُمْ﴾ کا یہ معنیٰ بھی لیا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد لوگوں کے مسائل کا حل ہے تاکہ وہ قرآن مجید کی رہنمائی میں اپنے مسائل کا حل کرسکیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) سے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ 2۔ قرآن مجید عقلمند لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ 3۔ قرآن مجید لوگوں کے مسائل: کا حل بتلاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کے نزدیک عقل و فکر کی اہمیّت : 1۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے پیغام ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (ابراہیم :52) 2۔ نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (آل عمران :7) 3۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر :9) 4۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی طرف نازل فرمایا ہے وہ حق ہے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الرعد :19)