سورة طه - آیت 95

قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

موسی (علیہ السلام) بولا ، اے سامری تیرا کیا حال ہے ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 95 سے 96) ربط کلام : حضرت ہارون (علیہ السلام) سے وضاحت طلب کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کا سامری کو مخاطب کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ یہ سامری نے جرم کیا ہے۔ انھوں نے بڑے جلال میں آکر سامری سے استفسار فرمایا کہ اے سامری! تو نے بنی اسرائیل کو کیوں گمراہ کیا ؟ سامری نے کہا میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جسے لوگ نہ دیکھ پائے۔ میں نے وہاں سے ایک مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور اسے پگھلے ہوئے زیورات میں ڈال کر بچھڑا بنایا اور یہ سب کچھ میرے اپنے دل و دماغ کا کیا دھرا ہے۔ سامری کے الفاظ اور انداز سے معلو ہوتا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جلال سے ڈر کر اس بات کا اعتراف کیا کہ اس جرم میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں بلکہ یہ میرے ہی نفس کی شرارت ہے۔ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے بڑی معرکہ آراء بحث کی ہے۔ ایک طبقہ کا خیال ہے ﴿ اَثَرَ الرُّسُوْلِ﴾ سے مراد حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کے نقش قدم ہیں۔ جب انھوں نے ڈوبتے ہوئے فرعون کے منہ میں مٹی ڈالی تھی تو جبرئیل امین (علیہ السلام) کی سواری جہاں قدم رکھتی وہاں سبزہ اگ آتا۔ سامری نے یہ منظر دیکھ کر وہ مٹی اٹھائی اور بعد ازاں بنی اسرائیل کے زیورات کو پگھلا کر ایک بچھڑا بنایا جس کے منہ میں یہ مٹی ڈالی تو وہ بولنے لگا۔ دوسرا طبقہ اس معاملے میں اس حد تک آگے گزر گیا کہ انھوں نے اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر حضرت ہارون کو اس کام میں ملوث کر ڈالا حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ بنی اسرائیل کے زیورات سے سامری نے بچھڑا بنایا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ساتھ اس مٹی کی نسبت جوڑی جس کو اس نے بچھڑے کے منہ میں ڈالا تھا۔ اس میں مٹی کا کوئی کمال نہ تھا یہ سامری کی فنکاری کا نتیجہ تھا کہ اس نے زیورات کو ڈھال کر اس تکنیک کے ساتھ بچھڑے کا پتلا تیار کیا کہ جب اس کی ناک کی طرف سے ہوا داخل ہوتی تو اس کے منہ سے مختلف قسم کی آوازیں آتی۔ جس سے متاثر ہو کر جاہل اور ضعیف الاعتقاد لوگوں نے اسے معبود سمجھ لیا۔