يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا
اے زکریا (علیہ السلام) ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں اس کا نام یحیٰ (علیہ السلام) ہوگا ، اس وقت سے پہلے ہم نے کوئی آدمی اس کا ہم نام نہیں کیا (ف ٢) ۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے11) ربط کلام : حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور انھیں فی الفور یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی گئی، حضرت زکریا کا نشانی طلب کرنا۔ سورۃ آل عمران میں ذکر ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے ذریعہ یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری سنائی گئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اولاد دینے والا نہیں اور زکریا (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملائکہ نے یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی تھی۔ اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دی اور اس کا نام یحییٰ رکھا۔ اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا۔ جب زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری ملی تو عرض کرنے لگے میرے رب ! میرے ہاں کس طرح بیٹا ہوگا جبکہ میں اور میری بیوی صحت کے اعتبار سے اولاد جنم دینے کے قابل نہیں ہیں۔ میں بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ چکا ہوں۔ یہاں تک کہ میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں اور میرے بال سفیدی سے چمک رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ اے میرے بندے زکریا! کیا تو نے اپنے آپ پر غور نہیں کیا کہ میں نے تجھے پیدا کیا ہے جبکہ تیرا ذکر اور وجود ہی نہیں تھا۔ بے شک تو اور تیری بیوی بچہ جنم دینے کے قابل نہیں لیکن میرے لیے تجھے بچہ عنایت کرنا کوئی مشکل نہیں۔ کیونکہ میں خالقِ کل اور مسبب الاسباب ہوں۔ مخلوق اور اسباب میرے محتاج ہیں میں مخلوق اور اسباب کا محتاج نہیں ہوں۔ بیٹے کی خوشخبری دیتے۔ ہوئے ناصرف اللہ تعالیٰ نے اس کا نام یحییٰ بتلایا بلکہ یہ بھی وضاحت فرمائی کہ اس سے پہلے آج تک یہ کسی کا نام نہیں رکھا گیا۔ ﴿سَمِیًّا﴾کا لفظ اوصاف کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کا نام بتلانے کے ساتھ اس کے بڑے بڑے اوصاف سے بھی آگاہ کردیا گیا۔ یاد رہے کہ عربی میں غلام کے چار مشہور معانی ہیں۔ 1۔ بیٹا 2۔ نوعمر لڑکا 3۔ زر خرید آدمی غلام 4۔ تابع دار انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور انسان ہوتے ہیں۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی ہونے کے ساتھ ایک انسان ہی تھے۔ جو کام انسان کی سوچ سے ماورآ اور اس کے خیال میں ناممکن ہو۔ اس کے بارے میں اسے خوشخبری دی جائے تو وہ اس کے ظہور کے قرائن اور شواہد کا طلب گار ہوتا ہے تاکہ اس کی طبیعت اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ اور دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس پر یقین آ جائے۔ اس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ جب انھوں نے عرض کی کہ میرے رب ! آپ کس طرح مردوں کو زندہ کریں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے ابراہیم ! کیا تو بھی ایمان نہیں رکھتا ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواباً عرض کیا ” کیوں نہیں“ میرا پوری طرح ایمان ہے کہ آپ مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں اور کریں گے لیکن میں نے اپنے دل کے اطمینان کے لیے یہ عرض کی ہے۔ جس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چار مختلف پرندے اپنے ساتھ مانوس کرنے کے بعد انھیں ذبح کرکے ان کا گوشت پہاڑ کی مختلف جگہوں پر رکھنے کا حکم ہوا۔ جس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سورۃ البقرۃ آیت 260کی تلاوت کیجیے۔ ایسی ہی کیفیت میں حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بیٹے کی ولادت کی نشانی عطا کرنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ بچے کی ولادت کی نشانی یہ ہے کہ آپ تین راتیں تندرست ہونے کے باوجود بات چیت نہیں کرسکیں گے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی صبح و شام خوب حمد و ثناء کریں۔ سورہ آل عمران میں تین ایام کا ذکر ہے کہ آپ تین دن رات تک اشارے کے سوا بات نہیں کر پائیں گے۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ جب زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو اسی رات اللہ تعالیٰ نے ان کی بیوی کو صاحب امید کردیا قرآن مجید کے الفاظ سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو نہی زکریا (علیہ السلام) کی اہلیہ صاحب امید ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کی تین دن کے لیے زبان بند کردی تاکہ زکریا (علیہ السلام) بیٹے کی خوشخبری پاکر تین دن تک معمولات سے ہٹ کر اپنے رب کی غیر معمولی حمد و ثناء اور اس کا شکر ادا کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ ﴾ الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں جب اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں اور وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کسی سبب کے بغیر سب کچھ کرسکتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی قدرت کی نشانی طلب کرنا جائز ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اولاد اور کوئی نعمت عطا فرمائے تو اس کی حمد وشکر کرنا چاہیے۔ 4۔ انسان کو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنا چاہیے اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں دے سکتا۔ تفسیر بالقرآن: یحییٰ ( علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : 1۔ ہم نے اسے لڑکپن میں دانائی عطا فرمائی تھی اور اپنی جناب سے پاکیزگی اور شفقت عطا فرمائی تھی وہ پرہیزگار تھے اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے، سرکش اور نافرمان نہ تھے۔ (مریم : 12تا14) 2۔ یقیناً اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کریں گے، سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے، نیکوکاروں میں سے ہوں گے۔ (آل عمران :39) 3۔ زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس سب کے سب نیکوکاروں میں سے تھے۔ (الانعام :89 )