سورة الكهف - آیت 109

قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اگر میرے رب کی باتوں کے (لکھنے کے) لئے سمندر سیاہی بن جائے ، تو میرے رب کی باتیں تمام ہونے سے پہلے سمندر خرچ ہوجائے گا اور اگرچہ ہم ویسا ہی ایک اور سمندر مدد میں لائیں (ف ٣) ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جس طرح جنت کی نعمتوں کا تصور اور اس کا شمار کرنا محال ہے اسی طرح ہی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں، نعمتوں اور اس کی تعریفات کا شمار کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ سورۃ ابراہیم آیت 34میں ارشاد ہے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ ظاہر بات ہے کہ جب کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا تو اس کی حمد و ثناء اور تعریفات کا شمار اور حق کس طرح ادا کرسکتا ہے۔ اس لیے نبی کریم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ مومنوں کے ساتھ بالخصوص کفار کو فرمائیں کہ تم اپنے رب کی ذات، صفات اور اس کی تعریفات کرو یا نہ کرو۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ جس کی قدرتوں، نعمتوں اور تعریفات کو احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ ﴿وَلَوْ أَنَّمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَات اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾[ لقمان :27] ” اور اگر زمین کے درخت قلمیں اور سمندر سیاہی بن جائیں اور اس کے بعد سات سمندر اور بھی ہوں تو اللہ کی تعریفات ختم نہیں ہو سکتی بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ اسی حقیقت کے پیش نظر رسول اکرم (ﷺ) اپنے رب کی تعریف اس طرح کیا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ () حَدَّثَہُمْ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَاد اللَّہِ قَالَ یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ فَعَضَّلَتْ بالْمَلَکَیْنِ فَلَمْ یَدْرِیَا کَیْفَ یَکْتُبَانِہَا فَصَعِدَا إِلَی السَّمَاءِ وَقَالاَ یَا رَبَّنَا إِنَّ عَبْدَکَ قَدْ قَالَ مَقَالَۃً لاَ نَدْرِی کَیْفَ نَکْتُبُہَا قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ أَعْلَمُ بِمَا قَالَ عَبْدُہُ مَاذَا قَالَ عَبْدِی قَالاَ یَا رَبِّ إِنَّہُ قَالَ یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ فَقَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمَا اکْتُبَاہَا کَمَا قَالَ عَبْدِی حَتَّی یَلْقَانِی فَأَجْزِیَہُ بِہَا) [ رواہ ابن ماجۃ: باب فَضْلِ الْحَامِدِینَ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے بتلایا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یہ کلمات کہے اے میرے پروردگار تیرے لیے تعریف ہے ایسی تعریف جیسی تیرے پرجلال چہرے کے لیے زیبا اور تیری عظیم سلطنت کے لائق ہو، پس دو فرشتوں نے ان کلمات کا اجر لکھنے میں تنگی محسوس کی کہ وہ کیسے لکھیں ؟ تو وہ دونوں آسماں کی طرف گئے اور اللہ کے سامنے عرض کی اے ہمارے پروردگار تیرے بندے نے ایسے کلمات کہے ہیں کہ جن کا اجر لکھنا ہم نہیں جانتے۔ اللہ عزوجل نے ان سے پوچھا میرے بندے نے کیا کہا حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس نے کیا کہا فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے یہ کلمات کہیہیں (یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ) اللہ عزوجل نے فرمایا تم یہی کلمات لکھ دو جو کلمات میرے بندے نے ادا کیے ہیں یہاں تک کہ وہ مجھے آ ملے تو پھر میں اسے ان کلمات کا صلہ عطا کروں گا۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْد الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْأُالسَّمٰوٰتِ وَمِلْأُ الْاَرْضِ وَمِلْأُ مَا شِئْتَ مِنْ شَئٍ بَعْدُ اَھْلَ الثَّنَآءِ وَالْمَجْدِ اَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّمِنْکَ الْجَدُّ) [ رواہ مسلم : باب اعْتِدَالِ أَرْکَان الصَّلاَۃِ وَتَخْفِیفِہَا فِی تَمَامٍ] ” حضرت ابو سعیدخدری (رض) آپ (ﷺ) کے رکوع کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ آپ رکوع میں یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے اے اللہ تیری حمدوستائش اس قدر ہے جس طرح زمین و آسمان اور ہر چیز کو تو نے بھرپور وجود بخشا ہے۔ تو ہی تعریف و توصیف اور عظمت کے لائق ہے۔ تو اپنے بندے کی تعریف کا زیادہ حقدار ہے ہم سب تیرے ہی بندے ہیں۔ الٰہی جو چیز تو روک لے وہ کوئی نہیں دے سکتا اور جس کو تو عطا کرنا چاہے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ کسی کا حسب ونسب اور مال ومتاع تیرے حکم کے بغیر فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُول اللَّہ () لَیْلَۃً مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُہُ فَوَقَعَتْ یَدِی عَلَی بَطْنِ قَدَمَیْہِ وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ وَہُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَہُوَ یَقُول اللَّہُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِی ثَنَاءًا عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ) [ رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ] حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں میں نے رسول محترم (ﷺ) کو ایک رات ان کے بستر سے الگ پایا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو ٹٹولا میرے ہاتھ آپ کے دونوں قدموں کے درمیان آپ (ﷺ) کے پاؤں کو لگے آپ کے دونوں پاؤں مصلّے پر کھڑے تھے اور آپ دعا کر رہے تھے۔” اے اللہ! میں تیری ناراضگی کی بجائے تیری رضاکا طلب گار ہوں۔“ سزاکی بجائے معافی کا خواست گار ہوں اور میں تیری پناہ چاہتاہوں۔ مجھ میں تیری شایان شان تعریف کرنے کی طاقت وصلاحیت نہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ کَلِمَتَانِ حَبِیبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِیلَتَانِ فِی الْمِیزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی ﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ ] ” ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں، نہایت آسانی سے ادا ہوجاتے ہیں اور ترازو میں بہت وزنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمد اور عظمت کے ساتھ پاک ہے۔“ تفسیر بالقرآن: زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کے ہاں سربسجود رہتی ہے : 1۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہے۔ ( الصٰفٰت :1) 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الرعد :15) 3۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا اللہ کی مخلوق میں سے ہر چیز اسے سجدہ کرتی ہے اور وہ عاجزی کرتے ہیں اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز چوپائے اور فرشتے سجدہ کرتے ہیں۔ (النحل : 48۔49) 4۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز، چاند، سورج اور ستارے، پہاڑ، درخت اور چوپائے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الحج :18) 5۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن :6) 6۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل :45) 7۔ اے ایمان والو! رکوع و سجدہ کرو اپنے رب کی عبادت کرو اور نیکی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (الحج :77)