فَأَتْبَعَ سَبَبًا
پھر وہ ایک راہ پر چلا ۔
فہم القرآن: (آیت 85 سے 88) ربط کلام : ذوالقرنین کی پہلی مہم اور اس کی فتوحات۔ قرآن مجید نے ذوالقرنین کی مملکت اور اس کے اسباب و وسائل کا ذکر کرتے ہوئے یہ لفظ استعمال فرمائے ہیں۔﴿ فَأَتْبَعَ سَبَبًا﴾ اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک جماعت نے اس کا معنیٰ کیا ہے کہ وہ اسباب کے پیچھے چلا جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اس نے اپنی مملکت میں وسائل کے حصول کے لیے ٹھیک ٹھیک اقدامات کیے اور وسائل کی خوب منصوبہ بندی کی۔ ترقی یافتہ مملکت اور کامیاب حکمران کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ وسائل کے حصول کے ساتھ اس کی پلاننگ میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دیتا۔ ﴿ فَأَتْبَعَ سَبَبًا﴾کا دوسرا معنٰی یہ لیا گیا ہے کہ اس نے ایک راہ اختیار کی۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے فتح حاصل کرنے کے لیے ایک علاقے کو سامنے رکھا اور اس کے بارے میں بڑی حکمت عملی کے ساتھ فوجی مہم کا نقشہ تیار کیا۔ یہی بات فتح کی کلید ہوا کرتی ہے۔ اس پیش بندی کے ساتھ جدید اسلحہ، تربیت یافتہ اور منظم فوج، بہترین منصوبہ بندی اور مصمم ارادہ کے ساتھ لشکر جرار کی کمان کرتا ہے۔ ان وسائل کے ساتھ ذوالقرنین علاقے پر علاقہ اور بڑی بڑی حکومتوں کو فتح کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتا گیا۔ یہاں تک اپنی مملکت کے مغرب میں اس مقام پر جاپہنچا جس سے آگے سمندر ہی سمندر تھا۔ اس نے ساحل سمندر پر کھڑے ہو کر فتح یاب آنکھوں کے ساتھ سورج کا نظارہ کیا۔ جو مغرب کے وقت یوں دکھائی دیا جیسے وہ سمندر کی دلدل میں غوطہ زن اور دھنس رہا ہے۔ اس علاقہ کے لوگ ذوالقرنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گذار ہوتے ہیں کہ اے بادشاہ سلامت آپ غالب ہیں اور ہم مغلوب ہیں۔ لہٰذا ہم کلی طور پر سرنگوں اور آپ کے سامنے تابع فرماں ہیں۔ ہم اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرتے ہیں آپ چاہیں ہمارے ساتھ حسن سلوک کریں اگر چاہیں تو ہمیں گرفتار کریں اور سزا دیں۔ اگلی گفتگو کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ذوالقرنین کو یہ ارشاد فرمایا کہ تو ان لوگوں کو سزا دے یا ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اس نے کہا جس نے کسی کے ساتھ ظلم کیا تو بہت جلد اسے ” اللہ“ دنیا میں سزا دے گا، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا وہ اسے سخت ترین عذاب دے گا۔ لیکن جو شخص ایمان لایا اور اس نے صالح اعمال کیے اس کے لیے بہترین بدلہ ہے اور عنقریب اس کے لیے ان کے کام کو آسان کردیں گے۔ اس گفتگو کے بارے میں اہل علم کا استدلال ہے کہ ذوالقرنین حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کا پیغمبر بھی تھا۔ لیکن جید اہل علم کا خیال ہے کہ فقط ان الفاظ سے ذوالقرنین کا پیغمبر ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جن شخصیات اور شہد کی مکھی کے بارے میں بھی یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی، ظاہر ہے کہ ساری شخصیات اور شہد کی مکھی پیغمبر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اہل علم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ! للہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے دل میں یہ الفاظ القاء فرمائے جس کے نتیجہ میں اس نے خود کلامی کی یا اس کے عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے تاکہ لوگ بالخصوص حکمرانوں کو اس کے عقیدہ اور کردار کی اہمیّت جتلائی جائے۔ ہر دو صورتوں میں بات کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک حکمران کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ جو اقدام اٹھائے اس کے پیچھے یہ عقیدہ کار فرما ہو کہ اگر وہ کسی پر ظلم کرے گا تو اسے آخرت میں اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ اگر وہ مفتوح قوم اور اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کرے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے نیک نامی اور آخرت میں اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔ یہی وہ نصیحت ہے جو ذوالقرنین کے بارے میں معلومات دینے سے پہلے اہل مکہ کو کی گئی ہے کہ اے سوال کرنے والو! اس واقعہ میں تمھارے لیے بڑی ہی نصیحت کا سامان ہے۔ غور کرو کہ ذوالقرنین اتنا بڑا بادشاہ اور فاتح ہونے کے باوجود مفتوح اور کمزور لوگوں کے ساتھ کس قدر رحم دل اور مہربان تھا لیکن تمھاری حالت یہ ہے کہ تم اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود اپنے عزیز اقرباء پر ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہو۔ یاد رکھو عنقریب تمھیں اس ظلم کا انجام دیکھنا پڑے گا۔ اور یہ بھی عقیدہ رکھو کہ جو نیک اعمال کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا میں بھی آسانی پیدا کرے گا۔ مشفق اور ظالم بادشاہ کا فرق : (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَدْنَاہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ وَأَبْعَدَہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَائِرٌ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الإِمَامِ الْعَادِلِ] ” حضرت ابی سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے ہاں لوگوں میں سے محبوب اور قریب ترین شخص عادل بادشاہ ہوگا۔ لوگوں میں سے مبغوض اور اللہ سے دور شخص ظلم کرنے والا بادشاہ ہوگا“ سورج ڈوبتا نہیں : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ ہُرَیْرَۃَقَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنُ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ﴾) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ ( الحمد اللہ آج سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ واقعتاً سورج نہیں ڈوبتا) مسائل: 1۔ ذوالقرنین دنیا کے عظیم حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس نے وسائل جمع کیے اور ان کی خوب منصوبہ بندی کی۔ 2۔ ذوالقرنین اپنے ملک کے مغرب میں پیش قدمی کرتے ہوئے ساحل سمندر تک پہنچ گیا۔ 3۔ وہ ظلم کرنے کی بجائے رعایا پر احسان اور نرمی کرنے والا تھا۔ 4۔ ذوالقرنین صحیح العقیدہ اور آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھنے والا بادشاہ تھا۔