وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
اور وہ (ف ٣) ۔ دیوار جو تھی سو شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی ، اور اس کے نیچے ان کا خزانہ گڑا تھا ، اور ان کا باپ نیک شخص تھا ، سو تیرے رب نے چاہا ، کہ وہ دونوں جوان ہو کر اپنا وہ خزانہ تیرے رب کی رحمت سے (خود) نکالیں ، اور میں نے یہ کام اپنی طرف سے نہیں کیا ، یہ اس کا بھید ہے جس پر تو صبر نہ کرسکا ۔
فہم القرآن: ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) اپنے تیسرے کام کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں۔ حضرت خضر دیوار تعمیر کرنے کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس شہر میں یہ یتیموں کا مکان تھا جس کی دیوار گرنے ہی والی تھی۔ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ ہے جو ان بچوں کے نیک ماں باپ نے ان کے لیے چھپا رکھا تھا۔ قریب تھا یہ دیوار گر جائے اور خزانہ لوگوں کے ہاتھ لگ جائے۔ اس لیے ہم نے یہ دیوار درست کردی ہے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! بے شک آپ کو بھوک کی حالت میں یہ مشقت اٹھانی پڑی ہے مگر تیرے رب نے یہی چاہا کہ یہ دیوار درست کردی جائے تاکہ یتیم جوان ہو کر اس خزانے کو نکال لیں۔ یہ خزانہ تیرے رب کی رحمت اور ہمارا یتیموں کی خدمت کرنا اس کی مہربانی کا نتیجہ ہے یاد رکھیں کہ یہ کام بھی میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے ان کاموں کی حقیقت جس پر آپ صبر نہ کرسکے حضرت خضر کا وضاحت کردینا کہ یہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے یہ کام اپنی شریعت کے مطابق یعنی وحی کی روشنی میں کیے تھے۔ جس پر قیل وقال کرنے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کے بارے میں جہالت اور مشرکانہ عقائد : دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر عنوان طریقت جلد 12صفحہ 460پر درج ہے کہ ” راسخ مقدس ہستی (سیدناخضر) کے مظاہر سے فیضان حاصل ہوتا ہے جو پراسرار اور غیر فانی ہے یعنی الخضر جن کی ہادی طریقت کی حیثیت سے سب فرقے توقیروتعظیم کرتے ہیں کیونکہ وہ سیدنا موسیٰ کے رہنما اور صوفی کی روح کو حقیقت علیا سے آشنا کرانے کے اہل ہیں۔ خواجہ خضر کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ” ہندوستان میں سیدناخضر (علیہ السلام) کو کنوؤں اور چشموں کی روح کا روپ سمجھا جاتا ہے دریائے سندھ کے آرپار انہیں دریا کا اوتار سمجھا جاتا ہے سیدناخضر کی خانقاہ سندھ کے ایک جزیرے میں بھکر کے پاس ہے جہاں ہر مذہب کے عقیدت مند زیارت کو جاتے ہیں (ایضاً دائر ۃ المعاف : جلد، 5ص،22) اس طرح سیدنا خضر کے نام سے شرک کا ایک دروازہ کھل گیا اور اب تو سیدنا خضر کی نماز بھی پڑھی جانے لگی ہے جس کی برکت سے سیدنا خضر سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے تلقین مرشد کامل از صادق فرغانی ص240) اور بعض لوگ خواجہ خراج خضر کی نیازدریا میں پھینکتے ہیں تاکہ کشتی یا جہاز بخیر وعافیت کنارے پرلگ جائے گویا ایسے مشرکوں کے لیے خواجہ خضر ایک مستقل اوتار یا معبود بن گیا ہے۔ بعض مفسرین نے حضرت خضر کو انسان ماننے کی بجائے مافوق الفطرت ہستی قرار دیا ہے لیکن ان کا مؤقف غلط ہے۔ کیونکہ ملائکہ یا کوئی بھی مافوق الفطرت ہستی سے یہ ثابت نہیں کہ اس نے انسانی شکل اختیار کرنے کے باوجود کسی سے کھانے پینے کا مطالبہ کیا ہو۔ یہاں تو قرآن مجید دو ٹوک الفاظ میں بیان کر رہا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جناب خضر نے اہل قریہ سے کھانے کا مطالبہ کیا مگر انہوں نے انہیں کھانے کے لیے کچھ نہ دیا اس کے باوجود دونوں نے یتیموں کی چار دیواری کو مرمّت کیا۔ جہاں تک ملائکہ کا انسانی شکل میں کسی کے پاس آنے کا تعلق ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ ہمارے سامنے ہے جب ملائکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس انہیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دینے کے لیے آئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انسان سمجھ کر ان کے سامنے بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا لیکن ملائکہ نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا کیونکہ مافوق الفطرت مخلوق ہونے کی بنا پر وہ کھانے سے بے نیازتھے۔ اگر کوئی صاحب علم یہ بات کہتا ہے کہ کہ حضرت خضر نے آزمائشی طور پر کھانا طلب کیا تھا کیا موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کھانے کا مطالبہ فرضی طور پر کیا تھا؟ یتیم کی خدمت کا ثواب : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ خَیْرُ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحْسَنُ إِلَیْہِ وَشَرُّ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَاءُ إِلَیْہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الأدب، باب حق الیتیم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : مسلمانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو۔ مسلمانوں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔“ کیا خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں؟ (عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ (رض) قَالَ صَلَّی بِنَا النَّبِیُّ (ﷺ) الْعِشَاءَ فِی آخِرِ حَیَاتِہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ أَرَأَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ہَذِہِ، فَإِنَّ رَأْسَ مائَۃِ سَنَۃٍ مِنْہَا لاَ یَبْقَی مِمَّنْ ہُوَ عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ ) [ رواہ البخاری : باب السَّمَرِ بالْعِلْمِ] ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ہمیں نبی (ﷺ) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں عشاء کی نماز پڑھائی آپ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کیا میں تمہیں اس رات کے بارے نہ بتلاؤں یقیناً آج سے سو سال بعد جو اس وقت زندہ ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔“ (اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خضر (علیہ السلام) زندہ نہیں بلکہ فوت ہوچکے ہیں۔) مسائل: 1۔ یتامٰی کی خدمت کرنے کا حکم ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے بغیر آدمی کسی کی خدمت نہیں کرسکتا۔ 3۔ رزق حلال کی فراوانی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوا کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن: لفظ تأویل کے مختلف معانی : 1۔ اسی طرح تمھارا پروردگار تمھیں منتخب کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھلائے گا۔ (یوسف :6) 2۔ اگر تمھارا کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے خوب تر ہے۔ (النساء :59) 3۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور غلط مطلب کی تلاش میں متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہیں۔ (آل عمران :7) 4۔ وہ لوگ اس کے مصداق کا انتظار کر رہے ہیں۔ (الاعراف :53)