يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
مومنو ! دین اسلام میں پورے طور پر داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (ف ٢)
فہم القرآن : (آیت 208 سے 210) ربط کلام : منافق اور سب لوگوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی سوچ اور کردار کو کلی طور پر دائرہ اسلام میں داخل کرو یہی سلامتی کا راستہ اور شیطان کی پیروی سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے۔ اس کے سوا گمراہی ہے۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو رسول اللہ (ﷺ) کی ہجرت مدینہ کے معًا بعد مسلمان ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک مجلس میں ان خیالات کا اظہار کیا کہ کیا حرج ہے اگر ہم ہفتہ کے دن کی تعظیم کریں اور اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیں؟ اس طرح ہمارے اور یہودیوں کے درمیان مفاہمت کی فضا پید اہوسکتی ہے۔ اس صورت حال پر یہ حکم نازل ہوا کہ اے مسلمانو! لوگوں کے دباؤ یا مفاہمت کے جذبہ کی خاطر باطل نظریات کی پاسداری کرنے کے بجائے دین اسلام میں کامل اور مکمل طور پر داخل ہوجاؤ۔ یہ تمہاری زندگی کے تمام تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور اور تمہارے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ لہٰذا تمہاری معاشرت، معیشت، سیاست‘ جلوت و خلوت اور انفرادی اجتماعی زندگی کا ماحول اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر تم اسلام میں داخل ہو کر من مرضی اور خود غرضی کا مظاہرہ کرو اور اسلام کے ساتھ باطل نظریات کی پیوند کاری کا سوچو گے تو یہ اللہ کی تابعداری نہیں بلکہ شیطان کی اتباع تصور ہوگی۔ شیطان تمہارا ابدی، ازلی اور کھلا دشمن ہے۔ ایسے دشمن سے خیر کی توقع رکھنے والا کبھی خیر نہیں پاسکتا۔ تمہاری ہر قسم کی سلامتی اور دنیا وآخرت کی بھلائی اسلام میں مضمر ہے۔ کیونکہ اسلام کا نام اور پیغام ہر قسم کی سلامتی کا ضامن ہے۔ اگر تم واضح ہدایات کے باوجود سلامتی کے اس راستے سے ہٹ گئے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرنے والا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنی قوت اور طاقت کے ذریعے منکروں کو حلقۂ اسلام میں داخل کرسکتا تھا۔ لیکن اس کے ہر کام میں حکمت اور دانائی پنہاں ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ ہدایت کا معاملہ جبر کی بجائے لوگوں کے فہم و شعور اور مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ جن لوگوں کو تم راضی کرنے کے درپے ہو ان کے پاس ہر قسم کے دلائل آچکے ہیں۔ اب تو یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ بذات خود ملائکہ کا لشکر لے کر بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے جلوہ گر ہو اور انہیں اسلام کی دعوت دے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کسی کام کے فیصلے کے لیے بھیجتے ہیں تو پھر نہ اس میں تاخیر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے فیصلے کے سامنے کوئی دم مار سکتا ہے۔ قوم نوح‘ قوم لوط اور قوم عادو ثمود کی بستیاں اور علاقے زبان حال سے بول بول کر اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ کی نافرمانی کرنے والو ہمیں نگاہ عبرت سے دیکھو کہ ہمارا انجام کیا ہوا؟ ایسے لوگوں کو جلد بازی کے بجائے انتظار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار اختیار سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ بالآخر سب کچھ اسی کے حضور پیش ہونے والا ہے۔ مسائل : 1۔ اسلام میں کامل طور پرداخل ہونا چاہیے۔ 2۔ اسلام سے باہر اٹھنے والا قدم شیطان کی اتباع تصور ہوگا۔ 3۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ غالب اور اس کے کاموں میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ 5۔ ہدایت کے بعد گمراہ ہونے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ 6۔ فیصلے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور سب کچھ اسکے حضور پیش ہونے والا ہے۔ 7۔ ملائکہ اللہ کے حکم کے مطابق کاروائی کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ ہی مختار کل ہے : 1۔ ہر کام اللہ کے سپرد کرنا چاہیے۔ (البقرۃ:210) 2۔ ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ (الحج :41) 3۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (البروج :16) 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ :20) 5۔ نبی (ﷺ)کسی پر عذاب نازل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ (آل عمران: 128) 6۔ رسول اللہ (ﷺ) کو منافقین کے لیے دعا اور ان کی قبروں پر جانے سے روک دیا گیا۔ (التوبۃ:84) 7۔ نبی مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں۔ (التوبۃ: 113) 8۔ اللہ تعالی رسول اللہ (ﷺ) کی رضا کا پابند نہیں۔ (التوبۃ: 96) 9۔ رسول اللہ (ﷺ) نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ (الجن: 21) (القصص: 56)