قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا
تو کہہ (اے اہل مکہ) تم قرآن پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ بےشک وہ جنہیں قرآن سے پہلے علم دیا گیا ہے ہے (اہل کتاب) جب یہ قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں پر گر کر سجدہ کرتے ۔
فہم القرآن : (آیت 107 سے 109) ربط کلام : قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے اور اس کے احکام، حقائق اور اس کے بیان کردہ واقعات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر منکر اسے کتاب اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو انھیں چھوڑدیں جہاں تک حقیقی اہل علم کا تعلق ہے وہ تو ہر وقت اس کے سامنے سر تسلیم خم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو قرآن مجید عطا فرماکر یہ بات واضح کردی کہ آپ کا کام لوگوں تک حق پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ جو حق مان جائیں انہیں خوشخبری پہنچائیں اور جو انکار کریں انہیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ اسی کے پیش نظر ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں میں کھلے الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ لوگو! تمہارے پاس حق پہنچ چکا ہے جس کے حق ہونے میں کسی طرح بھی کوئی شبہ نہیں۔ لہٰذا اب تمہاری مرضی ہے کہ اس پر ایمان لاؤ یا اس کا انکار کرو۔ لیکن جن لوگوں کو قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا ہے۔ وہ تورات، انجیل اور زبور کے حوالے سے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آخری نبی مبعوث ہوگا اس پر قرآن مجید نازل کیا جائے گا۔ جس کے وجود اور نزول میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں ہوگی اہل کتاب میں سے اور جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو وہ پیشانی کے بل سجدے میں گر کر اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ یقیناً ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوچکا اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر کر اپنے رب کے حضور زاروقطار روتے ہیں۔ ان کی حق گوئی اور عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے خشوع و خضوع اور ایمان میں اضافہ کرتا ہے۔ ان آیات میں اہل علم کی یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ قرآن مجید کو حق اور سچ مانتے ہوئے نبی آخرالزماں (ﷺ) کو رسول بر حق مانتے ہیں اور انھیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بے انتہا اجر و ثواب دے گا اور ظالموں کو پوری پوری سزا دے گا۔ اسی بنا پر مومن شکروعاجزی کے جذبات میں اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں یہ حقیقی علم کا تقاضا ہے اور یہی ایک عالم کی شان ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا علم اور فکر وعمل نصیب فرمائے۔ (آمین) سجدہ تلاوت کی دعا : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کرکان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید من جانب اللہ ہے کسی کے ایمان لانے اور نہ لانے سے اس کی سچائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 2۔ حقیقی علم رکھنے والوں کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا ہے۔ تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ 3۔ قرآن مجید کی تلاوت علم والوں کے خشوع و خضوع میں اضافہ کرتی ہے۔ 4۔ اللہ کا وعدہ پورا ہونے والاہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کا وعدہ برحق ہے : 1۔ اللہ کا وعدہ یقیناً پورا ہو کررہے گا۔ (بنی اسرائیل :108) 2۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (المومن :77) 3۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بات سے کس کی بات سچی ہو سکتی ہے؟ (النساء :122) 4۔ آگاہ رہو اللہ کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر علم نہیں رکھتے۔ (یونس :55) 5۔ شیطان قیامت کے دن کہے گا اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا۔ (ابراہیم :22) 6۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان :33)