وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ إِلَّا أَن قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَّسُولًا
اور لوگوں کو ایمان لانے سے جب ان کے پاس ہدایت آئی صرف اسی بات نے روکا ہے کہ وہ بولے کیا اللہ نے ایک آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے ،
فہم القرآن : (آیت 94 سے 96) ربط کلام : رسول معظم (ﷺ) سے کفار مکہ نے متضاد قسم کے مطالبات کیے۔ جس کا جواب آپ کی زبان اطہر سے یہ دیا گیا کہ آپ فرمائیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والا ایک انسان ہوں۔ یہاں آپ کی بشریت کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ کیونکہ انبیاء کی بشریت کو بھی کفار اپنے انکا رکا بہانہ بنایا کرتے تھے۔ چنانچہ ارشادہوا کہ جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو انہوں نے یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کیا کہ عجب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بشر کو رسول بنا دیا ہے۔ یہی اعتراض کفار مکہ نے آپ پر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ارشاد فرمایا۔ کہ آپ انہیں فرمائیں کہ اگر زمین میں رہنے، سہنے والے فرشتے ہوتے۔ تو ہم ضرور ان کے پاس فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے۔ کیونکہ زمین میں انسان رہتے ہیں۔ لہٰذا نبی بھی انسان ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے تمام انبیاء انسان تھے۔ آپ (ﷺ) بھی انسان اور نبی ہیں۔ اتنی سچی، ٹھوس اور عقلی دلیل کے باوجود اگر یہ لوگ نہیں مانتے۔ تو انہیں بتلائیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے اعمال کو دیکھنے والا اور ان کی نیتوں سے باخبر ہے۔ حق کے منکرانبیاء کرام (علیہ السلام) کی ذات کے بارے میں ہمیشہ سے یہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ نبی انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ گویا کہ کفار کے نزدیک نبوت انسان کی بجائے فرشتے کا حق ہے۔ ان کے نزدیک نبی کا کھانا پینا، رہنا سہنا اور انسانی حاجات کے حوالے سے دوسرے انسانوں جیسا ہونا منصب نبوت کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر زمین پر ملائکہ رہائش پذیر ہوتے تو یقیناً کسی فرشتے کو رسول بنایا جاتا۔ کیونکہ فرشتہ ہی نورانی مخلوق کی ضروریات اور مشکلات کو سمجھ سکتا ہے۔ لیکن زمین پر انسان بستے ہیں۔ لہٰذا ان کی ضروریات اور حاجات کو سمجھنے کے لیے نبی ان کا ہم جنس ہونا چاہیے تھا تاکہ کسی کو یہ بہانہ نہ مل سکے کہ نوری مخلوق کو خاکی مخلوق کی مشکلات وضروریات کا کس طرح ادراک اور احساس ہوسکتا ہے۔ اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث فرمائے۔ ناصرف وہ انسان تھے بلکہ اپنی قوم کے ایک فرد ہوا کرتے تھے تاکہ صرف انسان کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی قوم کے مزاج اور علاقے کے حالات کے مطابق ان کی ضروریات اور مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مسائل: کا قابل عمل حل پیش کریں اور زندگی کے تمام معاملات میں ان کے سامنے اپنے آپ کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کریں۔ ان حقائق کے باوجود جو لوگ انکار کرتے ہیں انہیں کان کھول کرسن لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نا صرف ان کے اعمال کو دیکھتا ہے بلکہ ان کی نیتّوں سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ مسائل: 1۔ رسول کے بشرہونے کی وجہ سے کفاران کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی سب سے بڑی اور کافی ہے۔ 3۔ اگر زمین میں فرشتے رہائش پذیر ہوتے تو فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ خبیر وبصیر ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی گواہی : 1۔ فرما دیجیے میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ (بنی اسرائیل :96) 2۔ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ عرض کریں گے جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر ایک پر گواہ ہے۔ (المائدۃ:117) 3۔ ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے، پھر اللہ اس پر گواہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (یونس :46) 4۔ یقیناً اللہ قیامت کے دن ان میں فیصلہ فرمائیں گے اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (الحج :17) 5۔ میرا اجر اللہ کے ذمّہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا :47) 6۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (البروج :9)