سورة الإسراء - آیت 88

قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ ، اگر سب آدمی اور جن ایسا قرآن لانے پر جمع ہوجائیں ، تو اس کی مانندہر گز نہ لا سکیں گے ، اگرچہ بعض بعض کے مددگار ہوں ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 88 سے 89) ربط کلام : رسول معظم (ﷺ) پر وحی کے ذریعے قرآن نازل ہوا کرتا تھا۔ جس کے بارے میں کفار یہ الزام لگاتے کہ آپ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ جس پر انہیں ایک دفعہ پھر چیلنج دیا گیا ہے۔ حق کے مقابلے میں انسان جب ہٹ دھرمی اور مسلسل تکبر کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ تو اسے حق قبول کرنے سے الرجی سی ہوجاتی ہے۔ جس بناء پر وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ کفار مکہ کی بھی یہی حالت ہوچکی تھی۔ ایک وقت میں وہ الزام لگاتے کہ روم کے فلاں شخص سے بالواسطہ سیکھ کر اس کا کلام ہمارے سامنے قرآن کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ دوسرے وقت یہ الزام دیتے کہ یہ نبی اپنی طرف سے کلام بنا کر ہمارے سامنے سناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے الزمات کا جواب دیتے ہوئے یکے بعد دیگرچار چیلنج دئیے۔ جن میں پہلا چیلنج یہ تھا کہ اے پیغمبر ! آپ انہیں چیلنج کریں کہ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو تو اس جیسا قرآن بنا کر پیش کرو۔ اگر جن وانس سب کے سب جمع ہوجائیں کہ قرآن جیسا کلام لے آئیں۔ تو بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ بے شک یہ ایک دوسرے کی معاونت بھی کریں۔ ہم نے انہیں سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں توحیدو رسالت اور آخرت کے بارے میں مختلف الفاظ اور انداز میں کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ مگر لوگوں کی اکثریت اس کے ساتھ کفر کا رویہ ہی اختیار کرتی ہے۔ قرآن مجید کے چیلنج : 1۔ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا کے لائیں۔ (الطور :34) 2۔ دس آیات بناکر پیش کرو۔ (ھود :13) 3۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں؟ کہ آپ نے اسے اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ کہہ دو اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورۃ بنالاؤ۔ (یونس :38) 4۔ پورا قرآن مجید نہیں تو اس جیسی ایک سورۃ بنا کرلے آؤ۔ (البقرۃ:23) مسائل: 1۔ جن وانس مل کر بھی اس قرآن جیسی کتاب نہیں لاسکتے۔ 2۔ سارے ایک دوسرے کے مددگار بن کر بھی قرآن کا جواب پیش نہیں کرسکتے۔ 3۔ قرآن مجید میں طرح طرح کے مضامین بیان کیے گئے ہیں۔ 4۔ اکثر لوگ بار بار سمجھانے کے باوجود انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید کا مختلف الفاظ اور انداز میں سمجھانے کا طریقہ : 1۔ ہم نے اس قرآن میں تمام باتیں ہر طرح سے بیان کردی ہیں۔ (بنی اسرائیل :89) 2۔ یقیناً ہم نے قرآن میں تمام باتیں بیان کردیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل :41) 3۔ ہم نے اسے لوگوں میں بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر بہت سے لوگوں نے انکار کے سوا کچھ قبول نہ کیا۔ (الفرقان :50) 4۔ دیکھیں ہم کس طرح آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔ (الانعام :65) 5۔ اسی طرح ہم اپنی آیات پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ آپ نے یہ کسی سے پڑھی ہیں۔ سمجھنے والوں کے لیے آپ واضح کردیں۔ (الانعام :106)