يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
جس دن ہم سب آدمیوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے پھر جس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ میں دی جائیگی وہ اپنی کتاب پڑھیں گے اور ان پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہ ہوگا ،
فہم القرآن : ربط کلام : انسان کو اشرف المخلوقات اور بحروبر میں عزت و عظمت سے نوازنے کے ساتھ کھلا نہیں چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ اس کا پورا پورامحاسبہ ہوگا۔ قرآن مجید بار بار یہ حقیقت ازبر کرواتا ہے کہ اے انسان! تیرے ایک ایک عمل اور لفظ کو ضبط تحریر میں لایا جارہا ہے۔ کراماً کاتبین صبح و شام تیرے اعمال کا اندارج کر کے اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ قیامت کے دن پورے کا پورا ریکارڈ کتاب کی شکل میں تیرے سامنے رکھ دیا جائے گا پھر حکم ہو گا ﴿اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا ﴾[ بنی اسرائیل :14] ” اپنی کتاب یعنی اعمال نامے کو پڑھ۔ جو تیرے حساب کے لیے کافی ہے۔“ انسان اپنا اعمال نامہ دیکھ کر پکا راٹھے گا کہ ہائے افسوس ! اس میں ہر چھوٹی بڑی بات لکھ دی گئی ہے۔ اس نے تو کسی بات کو نہیں چھوڑا۔ (الکہف :49) قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال نامہ کی طرف بلایا جائے گا جس کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔ وہ اپنا اعمال نامہ پڑھ کر خوش ہوگا اور کسی پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ جو دنیا میں ہدایت سے اندھا رہا وہ آخرت میں اندھا ہوگا اور۔ یہاں پہلی آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ لفظ امام کے صحابہ کرام (رض) نے تین معنی لیے ہیں۔ 1۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ امام سے مراد ہر امت کا نبی ہوگا۔ جن کو اللہ تعالیٰ حکم فرمائیں گے کہ اپنی امت کو لے کر میری بارگاہ میں فلاں وقت حاضر ہوجاؤ۔ چنانچہ ہر نبی اپنی امت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر جواب دہ ہوگا۔ (بنی اسرائیل :71) 2۔ دوسری جماعت نے امام سے مرادہر شخص کا اعمال نامہ لیا ہے۔ کیونکہ ﴿بِاِمَامِھِمْ﴾ کے بعد یہ الفاظ آئے ہیں کہ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔ لہٰذا صحابہ کرام (رض) اور تابعین کی دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اس آیت کے سیاق وسباق کے حوالے سے یہاں ” امام“ سے مراد ہر شخص کا اعمال نامہ ہے۔ اور اسی کی طرف سب کو بلایا جائے گا۔ 3۔ صحابہ کرام کی تیسری جماعت نے ﴿بِاِمَامِھِمْ﴾ کا یہ معنیٰ لیا ہے کہ ہر شخص کو اس کے امام یعنی پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا۔ جن لوگوں نے قرآن وسنت کے حاملین کو اپنا رہبر اور پیشوابنایا۔ وہ ان کے ساتھ پیش ہوں گے اور جن لوگوں نے برے لوگوں کو اپنا رہبر اور پیشوامانا وہ ان کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ 4۔ جب سے مسلمانوں میں چار آئمہ کی تقلید کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اس وقت سے لیکر بعض علماء اپنے اپنے امام کی اہمیت اور اس کی تقلید ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ کہ اس آیت کی بنیاد پر آئمہ کی تقلید ثابت ہوتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو کسی ایک امام کا مقلد ہونا ضروری ہے۔ مسائل: 1۔ قیامت کے دن سب کو ان کے نامہ اعمال کے ساتھ بلایا جائے گا۔ 2۔ ہر امت کو اس کے نبی کے ساتھ بلایا جائے گا۔ 3۔ جن کو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا وہ اسے پڑھ کر خوش ہوگا۔ 4۔ جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا وہ پچھتائے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا : 1۔ ہر جان کو اس کی کمائی کا پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ:28) 2۔ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس :54) 3۔ نیک لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔ (مریم :60) 4۔ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الزمر :69) 5۔ ہر انسان کو اس کے اعمال کا پورا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ (النحل :111) 6۔ قیامت کے دن ہر کسی کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ:181) 7۔ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور کسی پردھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (النساء :124) 8۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (آل عمران :161)