سورة الإسراء - آیت 58

وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کوئی (نافرمان) بستی نہیں ، جسے ہم قیامت کے دن سے پہلے ہلاک نہ کریں ، یا سخت عذاب میں نہ ڈالیں ، یہ کتاب میں (تقدیر کی) لکھا ہوا ہے ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 58 سے 59) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کا عذاب صرف ڈرنے کی چیز ہی نہیں بلکہ حقیقتاً بھی نازل ہوتا ہے۔ جس طرح قوم ثمود پر نازل ہو اتھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات انتہائی ناپسند ہے کہ اسے براہ راست پکارنے اور اس کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بالواسطہ عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی اور کو پکارا جائے۔ شرک کی یہی بڑی اور عالمگیر قسم ہے۔ جس میں ہر زمانے کی اکثریت اور بڑی بڑی اقوام مبتلارہی ہیں۔ اسی سے انبیاء کرام منع کرتے رہے۔ سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے پانچ بتوں کو وسیلہ بنایا۔ جن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا فرمان ہے۔ یہ قوم نوح کے فوت ہونے والے پانچ بزرگوں کے نام ہیں۔ جن کی محبت وعقیدت اور احترام میں آکر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قربت چاہنے کے لیے ان کے مجسمے بنائے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں ان سے منع کیا۔ تو قوم نے صاف طور پر کہا کہ ہم اپنے معبودوں بالخصوص ود، سواع، یغوث، یعوق اور نصرکو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اسی طرح قوم نوح کے بعد آنے والی اقوام نے دیگر جرائم اور شرک کا ارتکاب کیا۔ شرک کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں کو ذلت آمیز عذاب کے ساتھ تہس نہس کیا۔ اب بھی اس کا اعلان ہے کہ قیامت سے پہلے ایسی بستیوں کو تہس نہس کرے گا یا پھر انہیں شدید ترین عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھا ہے۔ رہی یہ بات کہ پہلے انبیاء کی طرح رسول اکرم (ﷺ) پر اس قسم کے معجزات کیوں نازل نہیں کیے گئے۔ جو پہلے انبیاء پر نازل کیے گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی اقوام منہ مانگے معجزات جھٹلا کر تباہ ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو مہلت دینا چاہتا ہے۔ اگر تمہارے مطالبے پر من وعن معجزہ نازل کر دے تو پہلی اقوام کی طرح مہلت کی گنجائش نہ ہوگی۔ البتہ تم غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا جو معجزے رسول کریم (ﷺ) کو دیئے گئے ہیں۔ وہ اپنی تاثیر اور نتائج کے لحاظ سے پہلے معجزات کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ پہلے جیسے معجزات نازل نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلے لوگوں نے ان معجزات کو جھٹلا دیا تھا اور تم بھی ایسا کرو گے۔ اب تمھارے سامنے قوم ثمود کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ قوم ثمود کے مطالبہ پر ان کے سامنے اونٹنی کا معجزہ ظاہر ہوا۔ جو پہاڑ کو چیرتی، لوگوں کے سامنے ہنہناتی ہوئی ظاہر ہوئی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ یہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اونٹنی ہے۔ اسے تکلیف پہنچانے کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں اذیت ناک عذاب آلے گا۔ (الاعراف :73) مگر ان لوگوں نے حضرت صالح کو جھٹلایا اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ تب ان کے اس جرم کی وجہ سے عذاب نازل کیا گیا۔ جس نے انہیں زمین کے برابر کردیا۔ (الشمس :14) جس کا بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی کا کھلا معجزہ دیا۔ انہوں نے اونٹنی پر ظلم کیا۔ حا لا نکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجی تھیں۔ مسائل: 1۔ ہر بستی کی تباہی و بربادی کے متعلق لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ 2۔ کفار معجزات سے بصیرت حاصل نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن: ہر ایک چیز کتاب میں لکھی ہوئی ہے : 1۔ کوئی بستی نہیں مگر ہم اسے قیامت سے پہلے ہلاک یا پھر عذاب میں مبتلا کریں گے یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ (بنی اسرائیل :58) 2۔ کیا تم نہیں جانتے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ اسے جانتا ہے یہ سب کچھ کتاب میں موجود ہے۔ (الحج :70) 3۔ کوئی بھی مصیبت جو زمین سے آتی اور تمھیں پہنچتی ہے وہ پہلے ہی کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ (الحدید :22)