سورة الإسراء - آیت 47

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کس نیت سے قرآن سنتے ہیں ، (یعنی ہنسنے کو) جب تیری طرف کان لگاتے اور جب آپس میں مصلحت کرتے ہیں ، جب ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک جادو کے مارے ہوئے کے پیرو ہو (ف ١) ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 47 سے 48) ربط کلام : عقیدہ توحید سے نفرت کی بناء پر کفار قرآن مجید کو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اگر کہیں انہیں قرآن مجید سننا پڑجائے۔ تو وہ عیب جوئی کی نیت سے سنا کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن مجید کو کس نیت سے سنتے ہیں۔ کفار اور مشرکین کو قرآن مجید میں جس بات سے سب سے زیادہ چڑ تھی اور ہے۔ وہ توحید کا مضمون ہے۔ اس بناء پر کفار قرآن مجید سننے کے بعد آپس میں سرگوشیاں کرتے اور قرآن مجید سے متاثر ہونے والے حضرات کو کہتے کہ تم ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو ہوچکا ہے۔ اس پر رسول معظم (ﷺ) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ کہ اے پیغمبر! دیکھیں یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں ؟ یہ گمراہ ہوچکے ہیں، اب سیدھا راستہ نہیں پا سکتے۔ عقیدہ توحید سے انحراف اور قرآن مجید سے نفرت کی وجہ سے کفار اور مشرکین اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے تھے۔ ایک طرف وہ آپ کو جادو گر قرار دیتے اور پھر اسی زبان سے یہ الزام دیتے کہ آپ جادو زدہ ہیں۔ جب کوئی شخص گمراہ ہونے کے ساتھ حق کی مخالفت میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوجائے۔ تو اس کا ہدایت پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسی بناء پر ارشاد ہوا کہ اے رسول! یہ لوگ سیدھا راستہ نہیں پا سکتے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے کھول کھول کر ہدایت کے متعلقہ دلائل اور امثال بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں۔ مگر لوگ ان پر غور کرنے کی بجائے عیب جوئی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو ہدایت کی توفیق نہیں ملتی۔ جادو اور جادو گر کی حالت : جادو کفر یہ‘ شرکیہ‘ اوٹ پٹانگ الفاظ اور جس طریقے سے کیا جائے وہ کفر ہے۔ ﴿ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْ ایُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ﴾ [ البقرۃ: 102] ” سلیمان نے کفر کبھی نہیں کیا بلکہ کفر تو وہ شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے۔“ آپ (ﷺ) کا فرمان ہے : ( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) [ الترغیب و الترہیب] ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل ہوئی ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے مقاصد اور نیتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی سرگوشیوں کو بھی سنتا ہے۔ 3۔ کفار آپ (ﷺ) کو سحر زدہ قرار دیتے تھے۔ 4۔ آپ (ﷺ) پر الزام لگانے والے گمراہ لوگ ہیں یہ راہ راست نہیں پاسکتے۔ تفسیر بالقرآن: نبی (ﷺ) پر کفار کے الزامات : 1۔ ظالم کہتے ہیں تم ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کیا گیا ہے۔ (بنی اسرائیل :47) 2۔ انہوں نے کہا جو رسول تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ مجنون ہے۔ (الشعراء :27) 3۔ اور وہ کہتے ہیں آپ مجنون ہیں۔ (القلم :51) 4۔ وہ کہتے ہیں کیا شاعر اور مجنون کے لیے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (الصٰفٰت :36) 5۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا اسے جنون ہے۔ (سبا :8) 6۔ آپ (ﷺ) اللہ کے فضل سے مجنون نہیں۔ (القلم :2)