ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر تم طواف کو چلو جہاں سے سب لوگ چلتے ہیں اور خدا سے گناہ بخشواؤ ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔
فہم القرآن : ربط کلام : حج کے مناسک میں قریش کے خود ساختہ امتیاز اور بدعت کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ یہاں لوٹنے سے مراد عرفات پہنچ کر مزدلفہ واپس آنا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق حج کرنے والے نسل در نسل نو ذو الحجہ کو منٰی سے عرفات جاتے اور عرفات سے واپس مزدلفہ ٹھہرتے۔ مگر قریش نے اپنے مذہبی تقدس اور قومی تفاخر کے باعث یہ عقیدہ بنایا اور لوگوں میں پھیلایا ہوا تھا کہ ہم بیت اللہ کے متولّی اور مجاور ہیں اس لیے ہمارا مقام لوگوں سے ممتاز ہے لہٰذا ہمیں حدود حرم سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ عرفات حدود حرم سے باہر ہے۔ وہ مزدلفہ ہی میں قیام کرتے جب کہ لوگ عرفات سے ہو کر مزدلفہ آیا کرتے تھے۔ قریش کی دیکھا دیکھی ان کے حلیف قبائل نے بھی اپنے لیے یہ امتیاز قائم کرلیا۔ اس خود ساختہ تقدس کی نفی اور رسم کے خاتمہ کے لیے یہ حکم نازل ہواکہ ہر کسی کے لیے عرفات جانا لازم اور حج کا حصہ ہے۔ رسول کریم (ﷺ) نے عرفات کو حج کارکن اعظم قرار دیا ہے۔ جو شخص دسویں ذوالحجہ کی صبح تک بھی عرفات نہیں پہنچ سکا باقی مناسک ادا کرنے کے باوجود اس کا حج اد انہیں ہوگا اور اسے دوبارہ حج کرنا پڑے گا۔ [ رواہ أبوداوٗد : کتاب المناسک، باب من لم یدرک عرفۃ] عرفات میں سمع واطاعت کا نقطۂ عروج : عرفات میں حاضری حج کارکن اعظم ہونے کے باوجود حکم یہ ہے کہ یہاں غروب آفتاب کے فورًا بعد نماز مغرب ادا کیے بغیر مزدلفہ روانہ ہوا جائے۔ مسلمان کی سمع واطاعت کا اندازہ کیجئے کہ وہ مومن جو نماز کے وقت کا انتظار کیا کرتا تھا اور نماز کا وقت ہوتے ہی ہر تعلق سے لا تعلق ہو کر اس کے قدم مسجد کی طرف اٹھ جایا کرتے تھے‘ وہ نماز جس کی پابندئ وقت کا حکم ہے : ﴿إِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا۔﴾ [ النساء :103] ” مومنوں کے لیے نماز کے اوقات مقرر کردیے گئے ہیں۔“ لیکن مغرب کا وقت ہونے کے باوجود حکم ہوا ہے کہ یہاں نماز پڑھنے کے بجائے یونہی آگے چل دیجئے اور مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو ادا کیا جائے۔ ایک لمحہ ٹھہر کے ذرا سوچئے ! کہ بندہ اپنے رب کے حکم کے سامنے کس طرح بے اختیار وبے بس ہے؟ کہ پہلے بیماری یا کسی مجبوری کے بغیر اس نے ظہر اور عصر جمع کی۔ اور اب مغرب کی نماز پڑھنا تو درکنار یہاں ٹھہرنے کی بھی اجازت نہیں۔ عرفات وہی مقام مقدس ہے کہ جہاں رسول اکرم (ﷺ) نے انسانیت کو دونوں جہاں کی کامیابی کی گارنٹی دیتے ہوئے ایک عالمگیر چارٹر سے متعارف کروایا تھا۔ جس کے چند نکات یہ ہیں : (1) جب تک قرآن وسنت کو تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی سازش اور طاقت تمہیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ (2) میں آج کے بعد ہر قسم کی عصبیتوں کو اپنے پاؤں تلے روند تاہوں۔ (3) معاشی استحاصل کو ختم کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے سود کو حرام قرار دیا اور فرمایا کہ سب سے پہلے میں اپنے چچا کا سود معاف کرتا ہوں۔ وہ اس کے بعد اصل رقم کے بغیر کسی سے ایک دمڑی بھی سود وصول نہیں کرسکتے۔ (4) سابقہ تمام قتل و غارت معاف ہے اور سب سے پہلے اپنے قبیلے کا قتل معاف کرتاہوں۔ (5) سب انسان برابر ہیں مگر تقو ٰی و کردار کے لحاظ سے فرق برقرار رہے گا۔ اللہ کی قربتیں اسی کو حاصل ہوں گی جو اس کا تقو ٰی اختیار کرے گا۔ مسائل : 1۔ اہل حرم اور سب کو عرفات پہنچنا لازم ہے۔ 2۔ مناسک حج اخلاص اور سنت کے مطابق ادا کرنے چاہییں۔ 3۔ مانگ کر حج کرنا جائز نہیں۔ 4۔ اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت رحیم ہے۔ 5۔ حج میں تجارت کی جاسکتی ہے۔ حج کا مختصر طریقہ : میقات : نبی اکرم (ﷺ) نے مکہ کے چاروں جانب سمندر میں میقات مقرر فرمائے ہیں : 1۔ یلملم (سعدیہ) یہ مکہ سے 45کلو میٹر کے فاصلے پر جنو بی ایشیاء کے ممالک پاکستان، افغانستان، بھارت بنگلہ دیش اور چین وغیرہ کا میقات ہے۔ 2۔ قرن منا زل : مکہ سے عرفات کی طرف 94کلومیٹر پر اہل نجد اور دوسرے ممالک کے لیے ہے۔ 3۔ جحفہ : مکہ سے شمال مغرب کی طرف 187کلومیٹر کے فاصلے پر شام اور مصر وغیرہ کے لیے ہے۔ 4۔ ذوالحلیفہ : مکہ معظمہ سے مدینہ کی طرف 450کلومیٹر پر ہے۔ یہ اہل مدینہ کا میقات ہے۔ 5۔ ذات عرق : مکہ سے شمال مشرق کی طرف 94کلومیٹر دور ہے اسے ایران‘ عراق اور شمال مشرق کے مما لک کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ احرام باندھنے کا طریقہ : حج یا عمرہ کرنے والے کو میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا چاہیے۔ لیکن پاکستان کا میقات یلملم سمندر میں ہے۔ ہوائی جہاز میں احرام باندھنے میں دقّت پیش آتی ہے۔ اس لیے اپنے گھر یا ایئر پورٹ سے احرام باندھ لیا جائے۔ البتہ احرام کی پابندیاں اور تلبیہ میقات پر پہنچ کر شروع کرنا ہوگا۔ احرام سے پہلے ضرورت ہو تو حجامت کروائے ورنہ غسل کے بعد خوشبو لگا کر احرام باندھنا چاہیے احرام کے دو نفل رسول کریم (ﷺ) سے ثابت نہیں کیونکہ جب آپ نے احرام باندھا تھا تو فرض نماز کا وقت تھا۔ اس لیے آپ نے مدینہ سے باہر میقات پر احرام کے بعد دو فرض ادا کیے تھے۔ تاہم احرام کے بعداکثر علماء دو نفل جائز سمجھتے ہیں۔ آدمی دو سفید چادروں میں احرام باندھے ایک تہبند اور دوسری کو سر ننگا رکھتے ہوئے اوپر لے۔ دایاں کندھا صرف پہلے طواف کے پہلے تین چکروں میں ننگا رکھنا ہے۔ یہ پہلا طواف عمرہ کا ہو یا حج کا اس سے پہلے یا بعد میں کندھا ننگا رکھنا جائز نہیں۔ کچھ علماء نے جدہ میں پہنچ کر احرام باندھنے کی اجازت دی ہے جس کا حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔ عورت کا احرام اور مخصوص ایّام : عورت اپنے روایتی لباس میں ہی احرام کی نیت کرے گی تاہم اس کے ہاتھ اور چہرہ ننگا ہونا چاہیے۔ مرد ہو یا عورت اسے ایسا جوتا پہننا چاہیے جو ٹخنوں سے نیچے ہو۔ عورت کو غیر محرم کے سامنے آنے پر چہرہ ڈھانپنا چاہیے۔ لیکن نقاب چہرے سے ہٹاہو نا چاہیے۔ اگر عورت کو مخصوص حالت پیش آ جائے تو احرام باندھ کر نماز پڑھے بغیر حج کے مناسک ادا کرے۔ اگر یہی حالت رہے تو بیت اللہ کا طواف بھی بعد میں کرنا ہوگا۔ بعض ملکوں میں قومی شناخت کے طور پر عورت کو خصوصی احرام کا پابند کیا گیا ہے یہ پابندی شریعت میں موجود نہیں۔ احرام میں جائز اور ناجائزکام : * احرام سے پہلے غسل اور خوشبو لگانا سنت ہے * احرام باندھ لینے کے بعد خوشبو لگانا جائز نہیں * مرد کا احرام دو سفید چادریں ہیں * عورت جس رنگ کا چاہے لباس پہن سکتی ہے مگر شوخ نہ ہو* مرد کا سر 249 چہرہ 249 ہاتھ اور پاؤں ننگے ہونے چاہییں* عورت غیر محرم کے سامنے آنے پر چہرہ ڈھانپے گی* احرام میں چپل پہننے کا رواج پڑگیا ہے ورنہ ایسا جوتا پہنا جا سکتا ہے جو ٹخنوں سے نیچے ہو* احرام میں نہانا، احرام بدلنا یا دھونا جسم یا سر کو کھجلانا بالکل جائز ہے* احرام کی حالت میں مرد کو نفل یا فرض نماز میں سر ڈھانپنے پر دم دینا پڑے گا۔* جان بوجھ کر مکھی، چیونٹی حتیٰ کہ جوئیں تک مارنا حرام ہے۔ ایسے ہی مباشرت اور نکاح جائز نہیں * البتہ سانپ اور بچھو مارا جاسکتا ہے * احرام میں چھتری استعمال کی جاسکتی ہے۔ اقسامِ حج 1۔ حجِ اَفراد : صرف حج کی نیت سے احرام باندھا جائے جس میں عمرہ شامل نہ ہو۔ 2۔ حج قران : جس میں یہ نیت ہو کہ حج اور عمرہ اکٹھے ادا کیے جائیں گے۔ یہ شخص عمرہ مکمل ہونے کے باوجود احرام نہیں اتار سکتا اسے عمرے والے احرام کے ساتھ ہی حج کرنا ہوگا۔ چاہے حج اور عمرے کے درمیان کتنے دن کیوں نہ ہو۔ 3۔ حجِ تَمَتُّعْ: تمتع کا معنٰی ہے فائدہ اٹھانا۔ اس میں حج اور عمرہ اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ احرام باندھنے کے مقام (میقات) پر پہنچ کر یہ نیت کی جائے کہ میں صرف عمرہ کا احرام باندھ رہا ہوں۔ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دوں گا۔ اب یہ شخص آٹھ ذوالحجہ کو دوبارہ مکہ میں جہاں رہ رہا ہے۔ وہاں سے ہی حج کے لیے احرام باندھے گا اسے میقات پر جانے کی ضرورت نہیں۔ حج تمتع اہل حرم کے لیے جائز نہیں۔ حج ایک نظر میں : 1۔ میقات پر احرام باندھنا اور تلبیہ کہنا۔ 2۔ 8 ذوالحجہ کو منٰی پہنچنا۔ 3۔ 9 ذوالحجہ کو عرفات میں قیام کرنا۔ اور ظہر، عصر اکٹھی پڑھنا اور قصد کرنا۔ 4۔ مغرب و عشاء مزدلفہ میں جمع کرنا اور قصرپڑھنا‘ رات گزارنا اور ١٠ ذوالحجہ کی صبح طلوع آفتاب کے قریب منٰی روانہ ہونا۔ 5۔ 10 ذوالحجہ کو کنکریاں مارنا قربانی کرنا‘ حجامت کروانا‘ اور بیت اللہ کا طواف کر کے واپس منٰی پہنچنا۔ 6۔ ایّام تشریق میں کنکریاں مارنا۔ 7۔ ایام تشریق کے دو یا تینوں دن منیٰ میں گزارنا۔ مذکورہ 10 ذو الحجہ کے مناسک کی ادائیگی میں تقدیم وتاخیر ہوجائے تو کوئی گناہ نہیں۔