مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا
جو دنیا کا طالب ہے ، فورا ہم اس کو اسی دنیا میں جو چاہیں دیتے ہیں ‘ جس کو ہم دیتا چاہیں ، پھر ہم نے اس کے لئے دوزخ مقرر کیا ہے جس میں ملامت سن کر اور مردود ہو کر داخل ہوگا ،
فہم القرآن : (آیت 18 سے 20) ربط کلام : اقوام کی تباہی میں بنیادی عنصر ان کی جلد بازی ہوا کرتا ہے۔ جس کی بناء پر وہ اصول کے مقابلے میں وقتی مفاد، صالح کردار کے مقابلہ میں دنیا کی لذّات، سہولیات اور آخرت کے بدلے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس بناء پر دنیا میں ذلت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ یہاں دنیا دار کو جلد باز قرار دینے کے بعد اس کا انجام ذکر کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص دنیا کے لیے جلد بازی کرتا ہے۔ ہم جس قدر چاہتے ہیں اسے دنیا دے دیتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہم نے جہنم تیار کی ہے۔ جس میں اسے ذلّت و پھٹکار کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں جس شخص نے آخرت کو پسند کیا اور اس کے لیے کوشش کی اس حال میں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان رکھنے والاہو۔ ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ دونوں قسم کے لوگوں کو مہلت دیتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ وہ ہر کسی کو مہلت دیے ہوئے ہے۔ اس مہلت سے جو لوگ صحیح فائدہ اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی کرم نوازی سے مزید عنایت فرمائیں گے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! غور فرمائیں کہ ہم کس طرح لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دیتے ہیں۔ جو لوگ دنیا کے حصول کے ساتھ آخرت کے لیے محنت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ترقی عنایت فرمانے کے ساتھ آخرت میں برتری اور بڑی فضیلت سے سرفراز فرمائے گا۔ یہاں دنیا کی جستجو کرنے والے کے لیے ” عجلت“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ دنیا دار آخرت کے اجر پر صبر کرنے کی بجائے دنیا کے مفاد کو مقدم سمجھتا ہے۔ جس وجہ سے وہ حق اور سچ پر قائم رہنے کی بجائے دنیا کے فائدے کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے لیے جلدی کرتا ہے۔ حالانکہ انسان حق کو ترجیح دے تو دنیا کے فائدے کے ساتھ آخرت میں اجر کا بھی حق دار بن جائے لیکن دنیا پرست جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کے لیے عاجلہ کا لفظ استعمال کیا۔ سورۃ القیامۃ آیت 20تا 21میں فرمایا ہے کہ بے شک کوئی شخص دنیا کے لیے کتنی جلدی کرلے۔ دنیا میں اسے وہی کچھ حاصل ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ آخرت کے لیے ” سعی“ کا لفظ استعمال فرمایا جس میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ مومن کو دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینی اور اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ آخرت کا صلہ کوشش کے بغیر نہیں ملے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیّبٍ وَّلَا یقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّیِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِیْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا یُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ)[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتے ہیں جیسا کہ تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ مسائل: 1۔ جو دنیا کی چاہت رکھتا ہے اسے اس قدر دنیا ملتی ہے جتنی اللہ چاہتا ہے۔ 2۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینے والے کو عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ 3۔ آخرت کے لیے کوشش کرنے والے کی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی عطا ختم ہونے والی نہیں۔