مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
جو ہدایت پر آتا ہے ، اپنے ہی لئے آتا ہے ، اور جو گمراہ ہوتا ہے ، اپنے ہی برے کو ہوتا ہے ، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہم عذاب (ف ١) ۔ نہیں کرتے جب تک کوئی رسول نہ بھجیں ،
فہم القرآن : ربط کلام : انسان کو اس کے اعمال نامہ کی بنیاد پر اس کا احتساب یاد دلانے کے بعد اس میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جارہا ہے۔ کہ جو ہدایت اختیار کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جوگمراہی اختیار کرے گا اس کا نقصان اسی کو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی وافر صلاحیتیں دینے کے باوجود اس بات کا اہتمام فرمایا کہ اس میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے اور اسے خود فراموشی سے نکالنے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ تاکہ انسان کو احساس ذمہ داری سے ہمکنار کرنے کی کوشش کریں۔ انبیاء (علیہ السلام) کی جدوجہد کا مقصد یہ تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ رہنمائی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اس کے لیے انہوں نے لوگوں کو یہ باور کروایا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت پر چلنے سے دنیا اور آخرت میں انسان ہی کو فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا اس کے ثمرات اسے ہی حاصل ہوں گے اور جس نے گمراہی کو اختیار کیا۔ اس گمراہی کا اسے ہی نقصان پہنچے گا اور قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک ان تک اس کا پیغام دینے والا نہ پہنچ جائے۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بارہا دفعہ واضح کی ہے کہ انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ اس کا حسب ونسب، جاہ و منصب اور مال و دولت قیامت کے دن اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ یہ ایسا اصول ہے جسے سمجھنے اور اپنائے بغیر فرد اور معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں ہو سکتی۔ جس فرد یا معاشرے میں اس اصول کا احساس ناپید ہوجائے اور مجرم اپنے اثر و رسوخ، جاہ و منصب اور وسائل و اسباب کی بنیاد پر چھوٹ جائے۔ اس معاشرے میں انارگی کی کوئی حد باقی نہیں رہتی۔ ملک و ملت کو انارگی سے بچانے کے لیے اس اصول اور اس کی پاسداری کا احساس پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ قرآن مجید اس بات کا بار بار احساس دلاتا ہے کہ دنیا میں مجرم کسی بہانے سے سزا سے بچ سکتا ہے۔ لیکن آخرت میں اسے کوئی بچانے اور چھڑانے والا نہیں ہوگا۔ رسول اکرم (ﷺ) کا اپنے رشتہ داروں سے خطاب : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾دَعَا النَّبِیُّ (ﷺ) قُرَیْشًا فَاجْتَمَعُوْا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ یَا بَنِیْ کَعْبِ ابْنِ لُؤَیٍّ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ مُرَّۃََ ابْنِ کَعْبٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِیَا بَنِیْ عَبْدِ شَمْسٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُم مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلَبِ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ یَا فَاطِمَۃُ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا غَیْرَاَنَّ لَکُمْ رَحِمًا سَاَبُلُّہَا بِبِلالِھَا) (رَوَاہٗ مُسْلِمٌ وَ فِی الْمُتَّفَقِ عَلَیْہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ“ تو آپ (ﷺ) نے قریش کو دعوت دی وہ جمع ہوگئے۔ آپ (ﷺ) نے ان کے خاص و عام سبھی کو دعوت دی‘ آپ نے فرمایا، اے بنو کعب بن لُوْی ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اے بنو مرہ بن کعب! تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے بنو عبد شمس! تم خود کو دوزخ سے بچاؤ۔ (اے بنی عبد مناف‘ بنی ہاشم‘ بنی عبدالمطلب) تم اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے فاطمہ ! تو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا۔ میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں ہوگا۔ بیشک تیرے ساتھ رشتہ ہے۔ اس رشتہ داری کا خیال رہے گا (مسلم) مسائل: 1۔ ہدایت کے فوائد ہدایت یافتہ کو ہی حاصل ہوں گے۔ 2۔ گمراہی کا وبال گمراہ انسان پر ہوگا۔ 3۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنا پیغام پہچانے سے پہلے کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن: کوئی کسی کی ذمّہ داری اور بوجھ نہیں اٹھائے گا : 1۔ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (بنی اسرائیل : 10۔ الفاطر :18) 2۔ اگر تم شکر کرو گے تو اللہ تم سے راضی ہوگا۔ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الزمر :7) 3۔ جو بھی انسان کرتا ہے اس کابوجھ اسی پہ ہے۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام :164) 4۔ خبر دار کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (النجم :38)