الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو کل جہان کا پروردگار ہے ۔ ف ٢۔
فہم القرآن : رحمن فعلان کے وزن پر مبالغے یعنی سپر ڈگری (Super Degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔ ’’الرحمن ‘‘ لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے اور لفظ ” الرحیم“ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے معنٰی یہ ہوا کہ وہ ” اللہ“ بے انتہا مہربان‘ ہمہ وقت اور ہر حال میں رحم فرمانے والا ہے۔ فرق یہ ہے کہ رحیم کسی مشفق شخصیت کو کہا جاسکتا ہے مگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ” الرحمن“ کہنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحیمیت کسی اضطرار اور مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اس کی رحمانیت کا عین تقاضا ہے۔ اس صفت کا تذکرہ قرآن مجید میں مختلف الفاظ اور انداز میں پایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جس قدر سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے لیکن جب اللہ کے حضور یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہوتا ہے کہ الٰہی! میرے جرائم اور خطاؤں کی آندھیوں نے میرے گلشن حیات کو برباد کردیا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے ہوئے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سرسبز وشاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی حیات نو سے ہمکنار کردے۔ بندۂ مومن کی عاجزی اور سرافگندگی پر رحمن ورحیم کی رحمت کے سمندر میں ایک تلاطم برپا ہوجاتا ہے۔ جس کی وسعتوں کا تذکرہ رسول کریم {ﷺ}یوں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی رحمت اس قدر وسیع وعریض ہے جیسے بحر بیکراں میں سوئی ڈبو کر نکال لی جائے تو اس سے سمندر کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے ہی کائنات کے تمام جن وانس کی حاجات اور تمناؤں کو پورا کردیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سمندر میں سوئی ڈبو کر باہر نکال لینے کے برابربھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ } رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم{ اللہ تعالیٰ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے کیونکہ اس نے ابتدائے آفرینش سے لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ } رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿ویحذرکم اللہ نفسہ﴾{ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری رحمت وشفقت ہر آن ان کے قریب رہتی ہے۔ ﴿رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ﴾[ الأعراف : 156] ” میری رحمت تمام اشیاء پر محیط ہے۔“ ﴿کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾[ الأنعام : 54] ” تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَآ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَآ أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّامُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَإِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّسْتَعْتِبَ) } رواہ البخاری : کتاب المرضٰی، باب تمنی المریض الموت{ ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ {ﷺ}سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہیں کریں گے۔ صحابہ کرام {رض}نے عرض کیا اے اللہ کے پاک نبی! آپ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں بھی نہیں سواۓ اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازدے۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو۔ تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ وہ نیک ہوگا تو اس کے اعمال میں اضافہ ہوجائے گا۔ اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کرلے۔“ رسول اکرم {ﷺ}کی دعا : (اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ لَآإِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ) } رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح { ” اے اللہ! میں تیری رحمت کا طلب گار ہوں مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا اور میرے سب کاموں کی اصلاح فرما تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ کی شفقت ومہربانی نے زمین و آسمان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعتیں : 1-اللہ ایک ہے،بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ } البقرۃ: 163{ 2۔ سب کچھ جاننے کے باوجود نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ }الحشر : 22{ 3-اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ }الاعراف : 156{ 4۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے۔ }الانعام : 54{ 5۔ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ }الزمر : 53{ 6۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ }الاعراف : 56{ 7 - اللہ کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔} المؤمن: 7{