سورة النحل - آیت 80

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور خدا نے تمہارے لئے تمہارے گھر بسنے کی جگہ بنائے ، اور چارپایوں کی کھال سے تمہارے لئے ڈیرے (بنائے) جو تمہیں تمہارے سفر کے دن اور تمہارے اقامت کے دن ہلکے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی اون اور ان کے رؤوں اور بالوں سے کتنے اسباب اور فوائد ایک وقت تک ہیں ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : پرندوں کے بعد چوپاؤں کے حوالے سے خدا کی قدرت کا شعور دیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے ماحول کے حوالے سے اپنی قدرت کا شعور دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو سکون اور سکونت کا باعث بنایا اور تمہیں صلاحیت عنایت فرمائی کہ تم چوپاؤں کی کھالوں سے گھر یعنی خیمے بناتے ہو جو نقل مکانی کی اور پڑاؤ ڈالنے کی شکل میں تمہارے لیے پھلکے ہوتے ہیں پھر چوپاؤں کی اون، پشم اور بالوں سے رہنے سہنے کے لیے سامان اور پہننے کے لیے اپنا لباس بنانے کے ساتھ اپنی زندگی کے لیے دیگر فوائد حاصل کرتے ہو۔ بھیڑ کی اون کو صوف کہا جاتا ہے جس کی جمع اصواف ہے اونٹ کے بالوں کو وبر کہتے ہیں جس کی جمع اوبار ہے، دنبے، بکری کے بالوں کو شعر کہتے ہیں جس کی جمع اشعار ہے۔ نزول قرآن کے وقت عربوں کی اکثریت پانی کی قلت اور اسباب زندگی کی کمی کی وجہ سے صحرا نوردوں کی زندگی بسر کرتے تھے۔ جس طرح ہمارے ملک میں بادیا نشین زندگی گزارتے ہیں ایسی حالت میں چوپاؤں کے چمڑے اور دیگر جانوروں کے بالوں اور اون سے بنے ہوئے خیمے ناصرف سائے گھنے اور اٹھانے میں سہل اور ہلکے ہوتے ہیں بلکہ چمڑے کے بنے ہوئے خیمے موسم کی حدّت اور برودت میں صحرا نشینوں کے لیے بہترین گھروں کا کام دیتے ہیں۔ گھر انسان ہی نہیں بلکہ درند پرند کے لیے سکون اور سکونت کا باعث ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ شام کے وقت پرندے اپنے گھونسلے کی طرف جاتے ہیں۔ درندے اپنے غاروں اور کیڑے مکوڑے اپنی بلوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنے گھر سے باہر کتنی اچھی رہائش گاہ میں قیام پذیر ہو اسے اس وقت تک چین نصیب نہیں ہوتا جب تک اپنے گھر واپس نہیں پلٹتا بے شک اس کا گھر کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس کی زندہ مثال ہر ملک میں بادیا نشین لوگوں کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے آپ ان کو شہر میں بہترین مکان مہیا کریں لیکن وہ اور ان کے بچے اپنی جھونپڑیوں میں جو سکون پاتے ہیں۔ وہ سکون انھیں محلاّت میں نہیں ملتا۔ درندوں، پرندوں اور انسانوں کا اپنے گھروں کی طرف پلٹنا اور سکون پانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ جذبے کی بنا پر ہے جس وجہ سے ہر جاندار کو اپناگھر پیارا ہوتا ہے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ کیونکہ اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے۔ گھر سے محبت اور اس کے سکون کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے انسان کو اس طرف توجہ دلائی ہے تاکہ وہ دنیا کے گھر میں رہ کر جنت کے گھر کی تیاری کرے۔ مسائل: 1۔ گھر انسان کے لیے باعث تسکین ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سکون کے لیے بہت کچھ پیدا فرمایا۔ تفسیر بالقرآن : سکون حاصل کرنے کے ذرائع : 1۔ اللہ نے تمہارے گھر تمہارے لیے سکون کا باعث بنائے ہیں۔ (النحل :80) 2۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات کو بنایا تاکہ تم سکون حاصل کرو۔ (یونس :67) 3۔ اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے دن اور رات بنائے تاکہ تم تسکین حاصل کرو۔ (القصص :82) 4۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا فرمائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ (الروم :21) 5۔ آپ ان کے لیے دعا کیجئے آپ کی دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے۔ (التوبۃ:103) 6۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (الرعد :28)