يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
تجھ سے نئے چاند (ف ٢) کی بابت سوال کرتے ہیں ، تو کہہ کہ یہ لوگوں کے اور حج کے لئے ٹھیرے ہوئے وقت ہیں اور یہ نیکی نہیں کہ تم اپنے گھروں میں ان کی چھت پر سے آؤ ، نیکی یہ ہے کہ آدمی ڈرے اور گھروں میں دروازوں سے آؤ اور خدا سے ڈرو کہ تم مراد کر پہنچو (ف ٣)
فہم القرآن : ربط کلام : روزے کا چاند سے تعلق ہے لہٰذا ضمناً چاند کے بارے میں ایک سوال کا جواب عنایت فرما دیا گیا ہے۔ کارخانۂ کائنات میں چاند مظاہر فطرت و قدرت میں سے ایک ہے جس کا انسانی زندگی اور ذہن پر خاص اثر پڑتا ہے۔ چاند کا جمال وکمال انسان کے لیے ہمیشہ سے دلرُبا رہا ہے۔ ماں کی مامتا بے ساختگی کے عالم میں اپنے لخت جگر کو چاند کہہ کر پکارتی ہے‘ شاعروں نے اسے اپنے کلام کا موضوع بنایا اور غلط ذہن لوگ اپنے محبوب کو چاند سے تشبیہ دیتے آئے ہیں چاندکی حسن صورت کو دیکھ کر انسان اس کے سامنے سرنگوں ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبیلہ اور قوم چاند کو اپنا معبود تصور کرنے لگی۔ اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی تبلیغ کے دوران چاند، سورج اور ستارہ پرستوں کو خطاب کرتے ہوئے سمجھایا تھا کہ غائب اور غروب ہونے والے کبھی مشکل کشا اور خدا نہیں ہوسکتے ” الانعام : 77اور حٰم السجدۃ: آیت 37“ میں فرمایا گیا کہ کائنات کی بڑی سے بڑی اور خوب تر سے خوب صورت ترین چیز بھی سجدہ کے لائق نہیں ہوسکتی۔ یہ تو تمہارے خدمت گار اور تابع دار کردیے گئے ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے مخصوص اسلوب بیان کے پیش نظر چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے عوامل کا ذکر نہیں کیا بلکہ سوال کا رخ موڑتے ہوئے یہ بتلایا ہے کہ چاند کا گھٹنا اور بڑھنا‘ اس کا طلوع اور غروب ہونا تمہارے لیے کھلے کیلنڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے تم اپنی زندگی کے ادوار، عبادت کے اوقات اور حج کے ایّام معلوم کرسکتے ہو۔ مسلمانوں کے لیے حج، روزہ، عید اور دیگر عبادات کا شمار شمسی حساب کے بجائے قمری حساب پر رکھا گیا ہے۔ قمری مہینے کی تاریخ طلوع چاند کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے قمری مہینہ انتیس یا تیس دن کا قرار پاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں شمسی مہینوں میں فرق زیادہ ہے۔ حتی کہ کچھ سالوں کے بعد ایک سال کو لیپ کا سال قرار دینا پڑتا ہے۔ شمسی حساب کا آغاز دن کی ابتداء کے بجائے رات 12 بجے شروع کیا جاتا ہے جو بذات خود عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ! ملت کو اس کا احساس بھی جاتا رہا اور آج مسلمانوں کی غالب اکثریت کو قمری مہینوں کے نام تک یاد نہیں۔ چاند کے فوائد کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی عربوں کی خود ساختہ رسم کی نفی کی گئی ہے کہ ضرورت کے وقت حج کے دوران اپنے گھروں میں آنا پڑے تو ان کے پچھواڑے سے دیواریں پھلانگ کر آنے کے بجائے دروازوں کے راستے آیا جایا کرو۔ کیونکہ تمہارا رب تمہاری خود ساختہ عبادات اور رسومات پر راضی نہیں ہوتا‘ نہ ہی دین کی بنیاد رسومات اور توہّمات پر رکھی گئی ہے۔ اس کی بنیاد تو حقیقی خوفِ الٰہی پر رکھی گئی ہے۔ یہی کامیابی کا زینہ اور وسیلہ ہے۔ لہٰذا تم ہر حال میں اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا خوف واحترام قائم رکھو، تاکہ تم دنیا وآخرت میں کامیاب ہوجاؤ۔ چاند کے بارے میں جدید تحقیق : بُعد قمر : (1) زمین سے چاند کا بعد اوسط 240000 میل ہے، قطر 2160 میل‘ اس کا حجم زمین کے حجم کا ٤٩/١ حصہ ہے اور وزن زمین کے وزن کا 81/1حصہ‘ اس کی سطحی کشش زمین کی سطحی کشش کا تقریبًا 6/1حصہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کا وزن سطح زمین پر 6پونڈ ہے سطح قمر پر اس کا وزن ایک پونڈ ہوگا۔ (2) چاند زمین کے ارد گرد 27 دن 7 گھنٹے 34 منٹ میں دورہ پورا کرتا ہے۔ (3) البتہ زمین کی سالانہ حرکت کے سبب ایک نئے چاند سے دوسرے نئے چاند تک ساڑھے انتیس دن لگتے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک حساب کریں تو یہ مدت 29 دن 12 گھنٹے 14 منٹ اور 2.8 سیکنڈ میں ختم ہوتی ہے۔ اس مدت کو ایک قمری مہینہ کہتے ہیں۔ مظاہر قمر : (1) چاند روشن کرہ نہیں بلکہ اس کی روشنی سورج کی روشنی کے انعکاس کا نتیجہ ہے۔ اس کا نصف حصہ سورج کے سامنے ہونے کی وجہ سے ہمیشہ منوّر ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کے مختلف مظاہر نظر آتے ہیں۔ (2) 28،29 تاریخ کو روشن حصہ آفتاب کی طرف اور تاریک پہلو زمین کی جانب ہوتا ہے اور وہ بالکل نظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس حالت کو محاق کہتے ہیں۔ حالت محاق میں شمس وقمر ایک سمت میں ہوتے ہیں۔ (3) پھر چاند آہستہ آہستہ سورج سے مشرق کی جانب ہوتا جاتا ہے۔ یکم کو اس کے چمکتے ہوئے چہرے کا صرف ایک باریک کنارہ ہمیں نظر آتا ہے۔ یہ ہلال کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از فلکیات جدیدہ) مسائل : 1۔ چاند کے ذریعے لوگوں کو حج اور دوسرے معاملات طے کرنے کے لیے اوقات معلوم ہوتے ہیں۔ 2۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 3۔ گناہوں سے بچنے اور تقو ٰی اختیار کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ 4۔ رسومات سے بچنا کامیابی کی ضمانت ہے۔