وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے آدمی ہی بھیجے تھے ان کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے ، سو اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر (یعنی اہل کتاب) سے پوچھ لو (ف ١) ۔
فہم القرآن : (آیت 43 سے 44) ربط کلام : عقیدۂ توحید اور آخرت کے انکار کے ساتھ اہل مکہ اس بات کے بھی منکر تھے کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید نے توحید اور عقیدہ آخرت کے دلائل دینے کے ساتھ اس بات کے شرعی، عقلی، نقلی اور تاریخی حوالہ جات کے ساتھ درجنوں دلائل دیے ہیں کہ رسول آخر الزماں (ﷺ) عبد، بشر اور آدمی ہیں۔ آپ سے پہلے جتنے رسول مبعوث کیے گئے۔ وہ عبد، بشر اور آدمی تھے۔ یہاں مختصر جواب یہ دیا گیا ہے کہ دلائل اور حقائق دینے کے باوجود رسالت مآب (ﷺ) کے منکروں کو کھلی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی تسلی کے لیے اہل ذکر سے پوچھ لیں کہ حضرت محمد (ﷺ) سے پہلے جو رسول آئے وہ جنس کے اعتبار سے آدمی تھے یا کوئی اور؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انبیاء کو واضح دلائل اور کتابیں دے کر بھیجا۔ اے نبی (ﷺ) ! ہم نے آپ کی طرف قرآن مجید نازل کیا ہے۔ تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بتلائیں تاکہ وہ اس پر غور و فکر کریں۔ یہاں الذکر کا لفظ دو دفعہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پہلی دفعہ اہل الذکر سے مراد تورات اور انجیل کے اہل علم ہیں۔ دوسری مرتبہ الذکر سے مراد قرآن مجید ہے۔ جو حضرت محمد (ﷺ) پر نازل کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی کھول دیا گیا ہے کہ آپ (ﷺ) کا کام صرف قرآن مجید لوگوں تک پہنچانا ہی نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق کھول کر بیان بھی کرنا ہے۔ ظاہر ہے جو آپ (ﷺ) نے اپنے عمل اور فرمان کے ذریعے قرآن مجید کی تبیین یعنی تفسیر فرمائی ہے اسے حدیث رسول (ﷺ) کہا جاتا ہے۔ جس کی تین قسمیں ہیں۔ 1۔ آپ (ﷺ) کا ارشاد۔ 2۔ آپ (ﷺ) کا عمل۔ 3۔ آپ (ﷺ) کے سامنے کسی صحابی نے دین سمجھ کر کوئی کام کیا ہو اور آپ (ﷺ) نے اسے دیکھ کر خاموشی اختیار کی۔ اس بات کو محدثین تقریری حدیث کہتے ہیں۔ یہ حدیث اس لیے مستند ہوتی ہے کہ اللہ کے پیغمبر کی یہ شان نہیں کہ اس کے سامنے کوئی غلط کام ہو رہا ہو اور وہ اسے دیکھ کر خاموش رہیں۔ اس اعتبار سے حدیث کی تینوں صورتیں ہی محفوظ کرلی گئی ہیں۔ کیونکہ جس طرح قرآن مجید کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے اسی طرح رسول اکرم (ﷺ) کی بتلائی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر کا محفوظ رہنا بھی لازم تھا۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) محدثین کی شکل میں ایک ایسی جماعت پیدا فرمائی جنہوں نے آپ (ﷺ) کے ایک ایک فرمان اور عمل کو قیامت تک امت کے لیے جمع کردیا۔ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے حدیث کی پہلی ضخیم کتاب حضرت امام مالک (رض) نے مؤطا کے نام سے لکھی جس کو انہوں نے اپنے زمانے میں تابعین یعنی صحابہ کرام (رض) کے بیٹوں اور شاگردوں کے سامنے پیش کیا۔ جس کا ہر زاویہ سے علمی تجزیہ کرنے کے بعد اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا۔ اس لیے اس کا نام موطا امام مالک (رح) رکھا گیا جس کا معنیٰ ہے روندی ہوئی گویا کہ علمی لحاظ سے شدید ترین تنقید سے گزری ہوئی کتاب“ امام مالک (رض) کے شاگرد، امام شافعی، امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل۔ نے ” مسند احمد“ کے نام سے ضخیم کتاب تحریر فرمائی۔ امام احمد بن حنبل (رح) کے شاگرد عظیم امام بخاری (رض) نے صحیح بخاری اور ان کے شاگرد امام مسلم (رض) نے صحیح مسلم اور ان کے شاگردوں نے صحاح ستہ میں شامل باقی چار کتابیں تحریر فرمائیں۔ اس طرح حدیث کی چھ کتابیں تیار ہوئیں جنھیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ صحاح کا معنیٰ صحیح اور ستہ عربی میں چھ کے عدد کو کہتے ہیں۔ ان کتابوں میں دین کے 99% مسائل: پائے جاتے ہیں۔ باقی مسائل: حدیث کی دوسری کتب میں موجود ہیں۔ اس طرح تسلسل کے ساتھ حدیث کا عظیم الشان ذخیرۂ ہم تک پہنچا۔ حدیث کے بغیر قرآن فہمی ناممکن ہے : دین اور اس کے بنیادی ارکان جن کے بارے میں قرآن مجید مختلف الفاظ اور انداز میں بار بار عمل پیرا ہونے کا حکم دیتا ہے۔ حدیث کے بغیر ان پر عمل کرنا ناممکن ہے ؟ اگر حدیث کی محض مخالفت مقصود نہ ہو تو ایک معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حدیث کے بغیر قرآن کے احکامات پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ قرآن مجید نے اکثر مسائل: کے بنیادی اصول ذکر کرنے کے بعد ان کی تفصیل رسول کریم (ﷺ) پر چھوڑ دی ہے۔ تاکہ حدیث کی اہمیت اور ضرورت لوگوں کے سامنے واضح ہوجائے۔ قرآن کے دلائل‘ حدیث کی ضرورت اور مستند تاریخی ریکارڈ کے سامنے لاجواب ہونے کے باوجود بعض لوگ اپنی کم علمی یا خبث باطن کی بنا پر محدثین کے خلاف یہ پراپیگنڈا کرتے ہوئے لوگوں کی نگاہوں میں حدیث کا مقام کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں محدث کے بقول اس نے اتنے لاکھ احادیث میں سے صرف چند ہزار حدیثیں اپنی کتاب میں نقل کی ہیں انہوں نے اتنی احادیث کو کیوں چھوڑا ؟ ایسی گفتگو اور اعتراضات اٹھانے والے در حقیقت فن حدیث اور محدثین کے حدیث جمع کرنے کے طریقہ کو نہیں سمجھتے۔ دنیا میں آج تک کوئی محدث ایسا نہیں ہوا جس نے جان بوجھ کر ایک بھی صحیح حدیث کو اپنی کتاب میں شامل کرنے سے انکار کیا ہو۔ مسائل: 1۔ تمام رسول انسان تھے۔ 2۔ جس چیز کا علم نہ ہو وہ اہل علم سے پوچھ لینی چاہیے۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) پر قرآن مجید نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ 4۔ آپ (ﷺ) کے ذمہ قرآن مجید کا پیغام پہنچانا اور اس کی تفسیر کرنا تھا۔ 5۔ قرآن مجید کی تفسیر حدیث ہے جو ہمیشہ محفوظ رہے گی۔ تفسیر بالقرآن : نبوت کے مرکزی مقاصد : 1۔ آپ (ﷺ) لوگوں پر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف بھیجا گیا ہے۔ (النحل :44) 2۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم :5) 3۔ ہم نے آپ (ﷺ) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا میری عبادت کرو۔ (الانبیاء :25) 4۔ ہم نے آپ (ﷺ) کو خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب :56) 5۔ اللہ نے ان پڑھ لوگوں میں رسول مبعوث فرمایا۔ جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، انہیں تعلیم دیتا ہے اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ (الجمعۃ:2)