وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
اور ہر امت میں ہم نے ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو ، اور طاغوت سے بچے ہو ، پھر ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت کی اور کسی پر گمراہی قائم ہوگی ، سو زمین میں سیر کرو ، پھر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ۔
فہم القرآن : (آیت 36 سے 37) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انبیاء کا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں پر حجت قائم کرنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں نبی مبعوث فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اس وقت تک کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک اس میں رسول مبعوث نہ کیا جائے۔ (بنی اسرائیل :15) دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا کہ رسول لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور برے اعمال کے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت یعنی بہانہ باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا زبردست اور حکمت والا ہے۔ (النساء :165) اسی اصول کے پیش نظر یہاں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا۔ جو لوگوں کو یہی بتلاتا اور سمجھاتا رہا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے ہدایت پائی اور باقی پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ گمراہوں کا انجام دیکھنے کے لیے زمین پر چل، پھر کر دیکھو تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ حق کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ امت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسول کو مبعوث کیا جاتا تھا۔ نبی کی تشریف آوری کے بعد یہ امت دو حصوں میں تقسیم ہوجایا کرتی تھی۔ خوش نصیب لوگ رسول پر ایمان لے آتے۔ حقیقی معنوں میں وہی اس رسول کی امت ہوتے تھے۔ اس امت کو امت ایجابہ کہا جاتا ہے۔” یعنی انبیا۔ کی دعوت قبول کرنے والے لوگ“۔ باقی لوگوں کو ” امت دعوت“ کہتے ہیں یعنی وہ لوگ جس کے لیے نبی بھیجا جاتا ہے۔ انبیاء ( علیہ السلام) کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ایک سمجھیں اور زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو مقدم جانیں۔ اس کے ساتھ ہر اس قوت کا انکار کریں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف لے جانے والی ہو۔ بے شک انسان کا ضمیر ہو یا معاشرے کے رسم و رواج اور کسی پارلیمنٹ کا فیصلہ یا حکومت کا قانون، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں یہ تمام کے تمام طاغوت سمجھے جائیں گے۔ عبادت کا یہی مفہوم انبیاء کرام (علیہ السلام) سمجھاتے اور کر کے دکھلایا کرتے تھے۔ لیکن پیغمبروں کے سمجھانے کے باوجود کچھ لوگ ہدایت یافتہ ہوئے اور باقی گمراہی پر جمے رہے۔ اے لوگو! ان کا انجام دیکھنے کے لیے ان کے علاقوں میں جا کر دیکھو کہ انبیاء ( علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کا کس قدر برا انجام ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سرور دو عالم (ﷺ) کو تسلی دی گئی کہ آپ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جس قدر خواہش کا اظہار اور محنت کریں۔ آپ ان کو ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتے کیونکہ جسے بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے۔ اسے ہدایت دینے میں کوئی بھی مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہدایت اسی شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ جو اس کی تمنا اور کوشش کرتا ہے۔ بصورت دیگر اللہ تعالیٰ جبراََ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ مسائل: 1۔ ہر امت کی طرف رسول بھیجا گیا۔ 2۔ ہر رسول نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا اور شیطان کی عبادت سے روکا۔ 3۔ انبیاء (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کے انجام پر نظر رکھنی چاہیے۔ 4۔ نبی اکرم (ﷺ) کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرسکتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: توحید و رسالت کے منکرین کا انجام : 1۔ زمین میں چل، پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النحل :36) 2۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف :25) 3۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور :11) 4۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ:92)