الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
وہ جن کی روح فرشتے اس وقت قبض کرتے تھے کہ جب وہ اپنی جانوں پر ستم کر رہے تھے پھر وہ اطاعت کا پیغام ڈالیں گے کہ ہم کچھ برائی نہ کرتے تھے ، کیوں نہیں ؟ اللہ جانتا ہے ، جو تم کرتے تھے (ف ٢) ۔
فہم القرآن : (آیت 28 سے 29) ربط کلام : آخرت میں کفار اور مشرکین کی ذلت کی ابتداء۔ کفار اور مشرکین کے بارے میں بتلایا جا رہا ہے کہ ان کی موت ذلت کے ساتھ ہوگی اور قیامت کے دن بھی ذلیل ہوں گے۔ اس سے قبل دو آیات میں یہ بتلایا ہے کہ کفار دنیا میں بھی ذلیل ہوتے ہیں۔ بالخصوص انبیاء کرام کا براہ راست مقابلہ کرنے والے کفار اور مشرک بالآخر دنیا میں ذلیل ہوئے۔ اب یہ بتلایا جاتا ہے کہ ان کی ذلت کی ابتدا اسی وقت ہوجاتی ہے جب ملائکہ ان کی روح قبض کرتے ہیں۔ ملائکہ پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ خوف کے مارے کہتے ہیں ہم کوئی برے کام نہیں کررہے تھے۔ ملائکہ انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کیوں نہیں! تم اپنے رب کے نافرمان اور باغی تھے۔ تم مانو یا نہ مانو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ بعض مفسرین نے ﴿فَاَلْقَوُاالسَّلَمَ﴾ کا یہ مفہوم لیا ہے کہ مرنے کے وقت یہ لوگ موت کے ملائکہ کو دیکھ کر ہتھیار ڈال دیں گے یعنی بے بس ہوجائیں گے یہاں تک کہ آہ وزاری کرنا چاہیں بھی تو نہیں کرسکیں گے۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یہ بھی بیان کیا ہے کہ موت کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی روح ہمارے حوالے کرو جب روح ان کے جسد عنصری سے باہر نہیں نکلتی تو وہ ان کے چہروں پر تھپڑ مارتے اور جھڑکیاں دیتے ہیں۔ اس ذلت اور رسوائی کے ساتھ ان کی روح قبض کی جاتی ہے۔ مرنے کے بعد ان کی قبر کو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بنا دیا جاتا ہے۔ محشر کے دن حکم ہوگا کہ تم جہنم کے دروازوں میں ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔ جو تکبر کرنے والوں کے لیے بد ترین جگہ ہے۔ یہاں جہنم کے ایک دروازے کا ذکر کرنے کی بجائے جمع کا لفظ لا کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ایسے مجرم ہیں کہ جہنم کے تمام دروازے اور اس کی بلائیں ان کا انتظار کر رہی ہوں گی۔ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآئِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْٓءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِیْ جَسَدِہٖ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ) [ رواہ أحمد] ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے کا اور موت کا وقت آ جاتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فرشتے فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوجاتی ہے۔ پھر اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔“ مسائل: 1۔ ظالم اپنے برے اعمال کو درست سمجھتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے باخبر ہے۔ 3۔ کفار جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ 4۔ تکبر کرنے والوں کا بہت برا ٹھکانا ہے۔ تفسیر بالقرآن : جہنم بدترین جگہ ہے : 1۔ جہنم کے دروازوں سے ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ تکبر کرنے والوں کا کیسا برا ٹھکانہ ہے۔ (النحل :29) 2۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ (النساء :97) 3۔ رسول کی مخالفت کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ (النساء :115) 4۔ اللہ نے کفار کے لیے جہنم تیار کی ہے، وہ برا ٹھکانہ ہے۔ (الفتح :6) 5۔ بے شک جہنم برا ٹھکانہ اور برا مقام ہے۔ (الفرقان :66)