سورة النحل - آیت 10

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۖ لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا اس سے تم پیتے ہو اور اس سے درخت ہوتے ہیں جہاں تم جانور چراتے ہو ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 10 سے 11) ربط کلام : حیوانات کے بعد نباتات کے حوالے سے انسان کو غوروفکر کرنے کی دعوت۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے ہر چیز کی زندگی کا انحصار پانی پر رکھا ہے۔ (الانبیاء :30) بالخصوص انسان اور حیوانات کی زندگی پانی کے سوا چند گھنٹوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی خوراک، رہائش بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا جس قدر چاہے ترقی کر جائے اس کی تعمیر و ترقی میں پانی کا عنصر ہمیشہ بنیادی حیثیت کے طور پر شامل رہے گا۔ جہاں تک انسان اور حیوانات کی خوراک کا تعلق ہے۔ اس میں پانی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے نباتات اور پھلوں کا ذکر کرنے سے پہلے پانی کا ذکر کیا ہے اور پانی کی بڑی مقدار اور اس کی منتقلی کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہی ہوا کرتی ہے۔ بارش نہ ہو تو زمین کا پانی بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ بارش کی نسبت آسمان کی طرف اس لیے کی جاتی ہے کہ یہ بلندی سے زمین کی طرف آتی ہے۔ جس کو ہوائیں سمندر سے اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں اور وہاں ایک خاص نکتۂ انجماد پر پہنچ کر پانی بارش کی صورت میں برستا ہے۔ جس سے نباتات اور فصلیں اگتی ہیں۔ انسان اور حیوانات اپنی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ بالخصوص اللہ تعالیٰ انسان کے لیے پانی سے زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے۔ اس میں غوروفکر کرنے والے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کو پہچاننے اور صراط مستقیم پانے میں بصیرت کے واضح دلائل موجود ہیں۔ جس کی وضاحت یوں فرمائی گئی ہے ﴿وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَ [ الرعد :4] ” اور زمین کے کئی قطعات ہیں جو آپس میں ملے جلے ہوتے ہیں۔ اس میں انگور کے باغات، مختلف فصلیں اور کھجوریں ہیں۔ جن میں سے کچھ اپنی جڑ سے ملی ہوتی ہیں اور کچھ جڑ سے اوپر ہوتی ہیں۔ ایک ہی پانی سے سیراب ہونے کے باوجود رنگ و نسل اور ذائقے کے اعتبار سے ان کے پھل ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ عقل مندوں کے لیے اس میں سوچنے کی بہت سی باتیں ہیں۔“ ﴿أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ﴾[ الانبیاء :30] ” کیا کافر لوگ غور نہیں کرتے کہ بے شک آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے ہم نے ان کو جدا کیا اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا، کیا وہ ایمان نہیں لاتے ؟“ مسائل: 1۔ آسمان سے پانی نازل کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ پانی تم پیتے ہو اور اسی سے سبزہ اگتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پانی سے انسانوں کے لیے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور اور مختلف قسم کے پھل پیدا فرماتا ہے۔ 4۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سے دلائل ہیں۔ تفسیر بالقرآن : نباتات میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں : 1۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل :11) 2۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون :19) 3۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس :34) 4۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام :99) 5۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام :141)