وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ
اور ہم نے تجھے سبع مثانی (سات چیزیں کہ دہرائی جاتی ہیں یعنی سورۃ فاتحہ) اور قرآن بڑے درجہ کا دیا ہے (ف ٢) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : سابقہ اقوام کے عبرت ناک انجام کے بعد رسول اللہ (ﷺ) کو تسلی و اطمینان دیتے ہوئے سورۃ کے اختتام میں گذشتہ تمام مضامین کو سمیٹا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر! آپ کو منکرین کے ساتھ اس لئے بھی نہیں الجھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سورۃ الفاتحہ اور قرآن مجید کی صورت میں عظیم دولت سے مالا مال کیا ہے۔ جس میں منکرین کا انجام اور اللہ کے بندوں کا انعام بیان کیا گیا ہے۔ نبوت کا منصب بذات خود اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ دنیا کا کوئی منصب اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مزید انعام و احسان یہ کہ نبوت کے منصب کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس شخصیت کو اپنی کتاب بھی عطا فرما دے۔ صاحب کتاب نبی جسے ” الرسول“ بھی کہا گیا ہے۔ یہ وہ منصب ہے کہ جس کا موازنہ اور مقابلہ کسی فرشتے کے ساتھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص ہمارے رسول مکرم (ﷺ) کا وہ منصب اور مقام ہے جس کی مثال کائنات کی کسی چیز سے نہیں دی جاسکتی۔ جس طرح آپ کی ذات اور مقام بے مثال اور عالی مرتبت ہے اسی طرح قرآن مجید کی صورت میں جو کتاب آپ کو عنایت کی گئی ہے۔ اس کی مثل کوئی دوسری کتاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ اے رسول (ﷺ) ! ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات یعنی سورۃ الفاتحہ اور قرآن مجید، فرقان حمید عنایت فرمایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کو بتلائیں کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایسی نصیحت آچکی ہے جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا، تمہاری زندگی کے لیے رہنما اور اس پر ایمان لانے والوں کے لیے رحمت ہے۔ لہٰذا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہوجاؤ۔ یہ سراسر بہتر ہے اس سے جو اپنے لیے جمع کرتے ہو۔ ( یونس : 57۔58) اس گراں مایہ خزانے کے ساتھ آپ کو سورۃ فاتحہ کی صورت میں سات آیات عنائت کی گئی ہیں۔ جو بار بار پڑھی جانے والی ہیں۔ قرآن مجید سورۃ فاتحہ کی زبان میں انعام یافتہ، مغضوب اور گمراہ لوگوں کے حوالے سے قوموں کے عروج وزوال بیان کرتا ہے تاکہ سمع واطاعت اور تسلیم ورضاکا رویّہ اختیار کرنے والوں کو بہترین انجام اور ان کا مرتبہ و مقام بتلایا جائے، باغیوں اور نافرمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایاجائے۔ قرآن مجید کے باقی ارشادات واحکامات انہی مضامین کی تفصیلات اور تقاضے ہیں اور یہی قرآن کا پیغام ہے۔ اسی بنیاد پر سورۃ الحمد کو فاتحہ اور ام الکتاب کا نام دے کر اس کو کتاب مبین کی ابتدا میں رکھا گیا ہے۔ فاتحہ کی فضیلت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ بَیْنَمَا جِبْرِیْلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ (ﷺ) سَمِعَ نَقِیْضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ ہٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَآءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ ہٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَھُمَا نَبِیٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیْمِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْھُمَا إِلَّآ أُعْطِیْتَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل الفاتحۃ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اقدس (ﷺ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی اور اپنا سر اٹھا کر فرمایا کہ آسمان کا جو دروازہ آج کھولا گیا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا یہ ایسا فرشتہ ہے جو آج ہی زمین پر نازل ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ (ﷺ) کو سلام کیا اور کہا : دونوروں کی خوشخبری سنیے ! یہ دونوں نور آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسراسورۃ البقرۃ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کی مانگی مراد پوری ہوجائے گی۔“ فاتحہ کی عظمت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) خَرَجَ عَلٰٓی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ (رض) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَا أُبَیُّ وَہُوَ یُصَلِّی فَالْتَفَتَ أُبَیٌّ وَلَمْ یُجِبْہُ وَصَلَّی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ مَا مَنَعَکَ یَا أُبَیُّ أَنْ تُجِیْبَنِیْٓ إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِیْمَآ أَوْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ أَنِ ﴿اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ﴾قَالَ بَلٰی وَلاآأَعُودُ إِنْ شَآء اللّٰہُ قَالَ تُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَکَ سُورَۃً لَمْ یَنْزِلْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِیْ الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا قَالَ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِی الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا وَإِنَّہَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمُ الَّذِیْٓ أُعْطِیَتُہٗ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب مَآ جَاءَ فِی فَضْلِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (ﷺ) ابی بن کعب کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے اسے آواز دی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت ابی (رض) نے التفات فرمایا اور جواب نہ دیا لیکن اپنی نماز کو ہلکا کردیا، پھر رسول اللہ (ﷺ) کی طرف آیا۔ تو اس نے کہا آپ کو سلام کہا! رسول اللہ (ﷺ) نے سلام کا جواب دیا اے ابی ! کس چیز نے تجھے جواب دینے سے روکے رکھا، اس نے کہا اللہ کے رسول میں نماز ادا کر رہا تھا آپ نے فرمایا کیا تو قرآن مجید میں یہ بات نہیں پاتا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو۔ جب وہ تمہیں بلائیں ایسی چیز کی طرف جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں انشاء اللہ دوبارہ ایسے نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے ایسی سورۃ سکھلاؤں جو توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نہیں ہے اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ! آپ (ﷺ) نے دریافت کیا تو نماز میں کیا پڑھتا ہے حضرت ابی نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس جیسی سورۃ توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی اور یقیناً یہ سات آیات ہیں اور عظمت والا قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ کُنَّا خَلْفَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فِی صَلاَۃِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فَثَقُلَتْ عَلَیْہِ الْقِرَاءَ ۃُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّکُمْ تَقْرَءُ ونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ قُلْنَا نَعَمْ ہَذَا یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ لاَ تَفْعَلُوا إِلاَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَإِنَّہُ لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا ) [ رواہ ابوداؤد : باب مَنْ تَرَکَ الْقِرَاءَ ۃَ فِی صَلاَتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ﷺ) کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے آپ پر قرأت بھاری ہوگئی۔ جب آپ (ﷺ) نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا تم امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو ؟ ہم نے عرض کی جی ہاں۔ آپ نے فرمایا تم صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کروکیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الفاتحہ کی صورت میں سات آیات دیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید کے اوصاف اور عظمت : 1۔ اللہ نے رسول اللہ کو قرآن مجید اور سات آیات دیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں۔ (الحجر :87) 2۔ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ (البقرۃ :2) 3۔ قرآن مجید برھان اور نور مبین ہے۔ (النساء :174) 4۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ:185) 5۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے کھلی کتاب ہے۔ (ھود :1) 6۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران :138)