وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ
اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا ۔ اور اس پر بوجھ ڈال دئیے ، اور اس میں ہر موزون شئے اگائی ،
فہم القرآن : (آیت 19 سے 21) ربط کلام : آسمان کے ذکر کے بعد زمین کا تذکرہ اور ظاہری جسامت کے حوالے سے سب سے بڑی مخلوق پہاڑوں کا بیان۔ سورۃ الانبیاء کی آیت 30میں زمین و آسمان کی ابتدائی ہیئت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا اللہ کے منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس نے زمین و آسمان کو کس طرح ایک دوسرے سے الگ کیا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سورۃ السجدۃ کی آیت 9تا 13میں قدرے تفصیل بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں بنایا۔ اس کے بعد اس پر پہاڑ نصب کیے پھر دو دن میں آسمانوں کی تکمیل کی اور ہر آسمان کے متعلقات کو انہیں اپنے اپنے مقام پر ٹھہرنے کا حکم صادر فرمایا۔ بعد ازاں آسمان دنیا کو ستاروں کے ساتھ خوبصورت کیا اور اس کی حفاظت کا بندوبست فرمایا۔ یہ سب غالب اور ہر چیز کا علم رکھنے والے اللہ کے فرمان کے عین مطابق ہوا۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا کر اس میں پہاڑوں کا ایک وسیع سلسلہ جما دیا اور زمین میں ہر چیز کو مقررہ مقدار اور معیار سے پیدا کیا۔ اس میں لوگوں کی معیشت کا بندوبست فرمایا اور ان کے رزق کا بندو بست بھی کیا جن کا رزق تمہارے ذمہ نہیں ہے۔ یہاں زمین کو پھیلانے کا ذکر کرنے کے بعد پہاڑوں اور زمین کی نباتات کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات میں دو باتوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک تو ہر چیز کو نہایت متناسب اور موزوں انداز سے پیدا کیا گیا ہے۔ جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز اپنے تخلیقی معیار کو پہنچ کر خود بخود ایک مقام پر جا کر کے ٹھہر جاتی ہے۔ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اس حقیقت کو جان کر ششدر رہ جاتا ہے۔ کہ اس کا ہر عضو تخلیق کے مقررہ معیار پر پہنچ کر ایک موزوں شکل و صورت میں ٹھہر جاتا ہے۔ اگر خالقِ کائنات کا ضابطۂ تخلیق اپنی موزونیت کے اصول پر نہ رہے تو انسان کے ناک، کان اور آنکھیں کتنی خوف ناک اور بے ڈھنگی ہو سکتی تھیں۔ ایک انسان کے باقی سب اعضاء موزوں اور مناسب شکل و صورت میں ہوں۔ لیکن اس کی ناک ہی صرف آدھا فٹ لمبی ہوجائے۔ تو وہ کتنا خوفناک انسان ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا کرشمہ اور اس کا ناقابل فراموش احسان ہے کہ اس نے ہر چیز کو ایک متعین شکل و صورت اور مقدار سے پیدا کیا ہے۔ جنس انسانی کے اعتبار سے اگر دنیا میں ہمیشہ مردوں یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب رہ سکتا تھا۔ یہی صورت حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی دوسری چیز کی پیداوار زیادہ ہوگی تاکہ رسد و نقل کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کریں۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں پھیلایا گیا بلکہ اس میں انسانوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کردیا گیا ہے۔ انسان تو اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤں میں بسنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتا ہے۔ ہر کسی کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق پہنچائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر وقت اور ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں متعین مقدار کے مطابق نازل کرتا رہتا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلایا اور اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ زمین میں ہر چیز اندازے کے مطابق اگاتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر کھانے والے کا رزق پیدا کر رکھا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز متعین مقدار کے مطابق نازل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے اور اس کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں : 1۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر :20) 2۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر :52) 3۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود :2) 4۔ بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذاریات :58)