لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
جنہوں نے اپنے رب کی بات مانی ان کے لیے بھلائی ہے ۔ اور جنہوں نے اس کی بات نہ مانی ، اگر ان کے پاس تمام زمین کا سارا مال بھی ہو اور اس کے اتنا ہی اور بھی ہو تو سارا ضرور اپنے فدیہ میں دے دیں ، مگر پھر بھی قبول نہ ہو ، اور وہ برا بچھونا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : حق واضح کرنے، دلائل اور مثال کے ذریعے سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ حق بات کو قبول کریں۔ جن لوگوں نے اپنے رب کی رضا کی خاطر اس کے حکم کو مانتے ہوئے سچائی کو قبول کیا اور اس پر عمل پیرا ہوگئے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہتری ہے۔ جنہوں نے اپنے رب کے حکم کو تسلیم نہ کیا ان کے لیے دنیا میں نقصان اور آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔ جس سے چھٹکارا پانے کے لیے زمین اور اس کی ہر چیز بلکہ اتنا کچھ اور بھی فدیہ کے طور پر دیں تو انہیں چھٹکارا حاصل نہ ہوگا۔ ان کا حساب و کتاب برا ہوگا اور انہیں جہنم میں جھونکا جائے گاجور ہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ قرآن مجید کئی مقامات پر یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ دنیا کے مال واسباب دنیا میں ہی رہ جائیں گے مرنے کے بعد انسان نے خالی ہاتھ اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں نیکی وبدی کے سوا انسان کے پاس اور کچھ نہ ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود قرآن مجید نے یہاں اور آل عمران : 91میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے فرمایا کہ مجرم فدیہ میں زمین سے بھرا ہوا سونا بھی دے تو اس کا چھٹکارا نہیں ہو پائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ کفر و شرک اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کا مرتکب شخص کسی صورت بھی عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) یَقُولُ کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَجَاءَ ہُ رَجُلاَنِ أَحَدُہُمَا یَشْکُو الْعَیْلَۃَ وَالآخَرُ یَشْکُو قَطْعَ السَّبِیلِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) أَمَّا قَطْعُ السَّبِیلِ فَإِنَّہُ لاَ یَأْتِی عَلَیْکَ إِلاَّ قَلِیلٌ حَتَّی تَخْرُجَ الْعِیرُ إِلٰی مَکَّۃَ بِغَیْرِخَفِیرٍ وَأَمَّا الْعَیْلَۃُ فَإِنَّ السَّاعَۃَ لاَ تَقُومُ حَتَّی یَطُوفَ أَحَدُکُمْ بِصَدَقَتِہِ لاَ یَجِدُ مَنْ یَقْبَلُہَا مِنْہُ، ثُمَّ لَیَقِفَنَّ أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ لَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ حِجَابٌ وَلاَ تُرْجُمَانٌ یُتَرْجِمُ لَہُ، ثُمَّ لَیَقُولَنَّ لَہُ أَلَمْ أُوتِکَ مَالاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی ثُمَّ لَیَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَیْکَ رَسُولاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی فَیَنْظُرُ عَنْ یَمِینِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ، ثُمَّ یَنْظُرُ عَنْ شِمَالِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ، فَلْیَتَّقِیَنَّ أَحَدُکُمُ النَّا رَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) [ رواہ البخاری : باب صدقۃ قبل الرد] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس موجود تھا کہ آپ کی خدمت میں دو آدمی آئے ایک نے فقر و فاقہ کی شکایت کی اور دوسرے نے راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت کی اس پر رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آئے گا جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ رہافقر و فاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ایک شخص اپنا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن اسے کوئی لینے والا نہ ہوگا، پھر اللہ کے سامنے ایک آدمی اس طرح کھڑا ہوگا اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ کوئی ترجمان، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں۔ اللہ فرمائے گا کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں، پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب دیکھے گا تو اسے آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا سو جہنم سے بچ جاؤ خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے سے ہی بچا جائے اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو منہ سے اچھی بات کہو۔“ ﴿لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَہَا وَہُمْ فِی مَا اشْتَہَتْ أَنْفُسُہُمْ خَالِدُوْن﴾[ الانبیاء :102] ” وہ جہنم کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور جنت میں وہ اپنی پسند کی نعمتوں میں رہیں گے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے فرما نبرداروں کے لیے اچھا بدلہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمان سب کچھ دے کر بھی عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن : مجرم سے کسی قسم کا فدیہ اور سفارش قبول نہیں کی جائے گی۔ 1۔ مجرم دنیا بھر کی چیزیں اور ان کی مثل بطور فدیہ دے کر بھی عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ (الرعد :18) 2۔ کسی سے قیامت کے دن کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا۔ (البقرۃ :48) 3۔ کسی کی دوستی کسی کے کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ :254) 4۔ کفار سے عذاب کے بدلے زمین بھرکا سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران :91)