لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
اسی کو (معبود سمجھ کر ) پکارنا حق ہے اور اس کے سوا جن کو وہ پکارتے ہیں ۔ ان کو کچھ جواب نہیں دے سکتے ۔ مگر جسے کوئی پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ اس کے منہ میں آ جائے اور وہ کبھی نہ پہنچنے والا ہو اس کو ۔ اور کافروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی ہے (ف ٢)
فہم القرآن : ربط کلام : کافر اور مشرک کو توحید کے ٹھوس دلائل دینے کے بعد اسے دعوت دی گئی ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کو پکارے۔ لہٰذا ذات حق اور اس کی بات پر ایمان لاؤ۔ مشرک کا غیر اللہ کو پکارنا اس قدر بے فائدہ اور بے حیثیت ہے جس طرح کوئی شخص نہریا کنویں کے کنارے کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر آواز پر آواز دے کہ اے پانی میری پیاس بجھادے لیکن وہ پانی کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ایسا شخص پانی کے کنارے کھڑا ہو کر تڑپ تڑپ کر مرسکتا ہے مگر پانی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی صورت حال مشرک کی ہوتی ہے اس کی اپنے معبودوں کے سامنے آہ وپکار گمراہی کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مشرک بظاہر اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے اس لیے یہاں لفظ کافر استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے پارہ میں دین اسلام کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی گئی جس میں اندھیرے بجلی اور گرج چمک بھی ہوا کرتی ہے۔ اس حالت میں لوگ موت کے ڈر کی وجہ سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اسلام کے بارے میں منافق کا یہی رویہ ہوتا ہے۔ (البقرۃ :19) یہاں عقیدۂ توحید کی مثال پانی کے ساتھ دی گئی ہے جس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں جس طرح پانی کے بغیر انسان کی زندگی محال ہے اسی طرح عقیدۂ توحید کے بغیر انسان روحانی طور پر مردہ ہوتا ہے۔ پانی کے بغیر کوئی چیز نشوونما نہیں پاسکتی عقیدۂ توحید کے بغیر انسان کا کوئی عمل شرف قبولیت نہیں پاسکتا۔ جس طرح پانی کے کنارے کھڑا ہوا انسان کوشش کے بغیر پانی نہیں پی سکتا اسی طرح عقیدہ توحید سمجھنے کے لیے توجہ اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح پانی پینے سے پیاسے کی روح تازہ ہوجاتی ہے اسی طرح توحید کے دلائل سے مومن کی روح میں نشاط پیدا ہوتی ہے۔ اس مثال سے یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ان کی پکار سوائے پکار کے کچھ نہیں۔ کیونکہ نہ فوت شدگان سنتے ہیں، نہ پتھر اور لکڑی کے بت سن سکتے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ایک اور مثال کے ذریعے یوں بیان کیا گیا ہے : اے لوگو تمہاری سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر بھی ایک مکھی پیدا نہیں کرسکتے مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی ان سے کوئی چیز اٹھالے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ لہٰذا مدد کے طالب اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے یہ سب کے سب کمزور ہیں درحقیقت ایسے لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں پہچانی جس طرح پہچاننی چاہیے تھی یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا طاقت ور اور ہر چیز پر غالب ہے۔ (الحج : 73تا74) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًااَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ، تَرَکْتُہٗ وَشِرْکَہٗ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَنَا مِنْہُ بَرِیْءٌ ھُوَ لِلَّذِیْ عَمِلَہٗ)[ رواہ مسلم، باب من اشرک فی عملہ غیراللّٰہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول گرامی (ﷺ) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے میں شریکوں کے شرک سے پاک ہوں۔ جو شخص بھی کوئی شرکیہ عمل کرتا ہے، میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو میں اس کو اور اس کے شرک کو مسترد کردیتا ہوں۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں اس سے بری ہوں اور اس نے جو عمل جس کے لیے کیا وہ اسی کے لیے ہے۔“ مسائل: 1۔ پکارنے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ 2۔ پانی پانی کہنے سے پانی منہ میں نہیں آسکتا۔ 3۔ فوت شدگان اور بت کسی کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ 4۔ کافروں کا پکارنا بے کار ہی جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مشرک کی عبادت اور پکار کی کوئی حیثیت نہیں : 1۔ کافروں کی پکار بے اثر ہے۔ (الرعد :14) 2۔ کافروں کی پکاربے کا رہی جائے گی۔ (المومن :50) 3۔ معبودان باطل اپنے چاہنے والوں کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (مریم :82) 4۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار کو نہیں سنتے اگر سن لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ (فاطر :14)