اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
میرا یہ کرتا لے جاؤ ، اور اسے میرے باپ کے منہ پر ڈال دو ، کہ وہ بینا ہو کر چلا آئے گا اور اپنا سارا گھرانہ میرے پاس لے آؤ۔ (ف ٢)
فہم القرآن : (آیت 93 سے 96) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اپنے بھائیوں کو الوداع کہتے ہوئے اپنی قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش کرنے کا حکم۔ نہ معلوم حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کتنے دنوں تک اپنے بھائیوں کو اپنے ہاں عزت و تکریم کے ساتھ ٹھہرایا۔ برادران جب اپنے وطن واپس جانے لگے تو انہیں الوداع کرتے ہوئے یوسف (علیہ السلام) نے اپنی قمیص دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے والد گرامی کے چہرہ اقدس پر رکھنا۔ جس سے ان کی بنائی لوٹ آئے گی۔ کیونکہ بنیامین انہیں گھریلو حالات اور والد محترم کی صحت کے بارے میں بتلا چکا تھا کہ آپ کے غم میں والد گرامی کی بینائی جاتی رہی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کو رخصت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ تم سب کے سب میرے ہاں آکر قیام کرو۔ ادھر قافلہ مصر سے روانہ ہوا، ادھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے گھر والوں سے فرمانے لگے اگر تم مجھے طعن نہ دو تو میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ ان کے گھر والے پھر کہنے لگے کہ آپ تو مدت سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ جب خوشخبری لانے والے نے آکر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چہرۂ اقدس پر یوسف (علیہ السلام) کی قمیص رکھی تو یکد م ان کی بینائی پلٹ آئیانہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوتا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) گھر والوں کو فرماتے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب یوسف کے ساتھ میری ضرور ملاقات ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ جب بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینک کر قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پیش کی تھی تو اس وقت انہوں نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ یوسف زندہ ہے اور مجھے اس کی خوشبو آرہی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) مصر میں حکمران بن چکے ہیں یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے دو مرتبہ یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات بھی کرچکے مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو کچھ معلوم نہیں ہوا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے چاہا اس وقت قمیص لانے والا ابھی مصر سے چلا ہے تو فرما رہے ہیں کہ مجھے اپنے پیارے بیٹے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ عقیدہ کا معاملہ ہے جس پر ہر مسلمان کا ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نہ بتلائے تو نبی کو غیب کے معاملات کی خبر نہیں ہوتی۔ مسائل: 1۔ انبیاء (علیہ السلام) کے معجزات برحق ہیں۔ 2۔ آدمی کو اپنے عزیز واقارب کا خیال رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ہی غیب جانتا ہے : 1۔ زمین و آسمان کا غیب اللہ ہی جانتا ہے۔ (النحل :77) 2۔ کہہ دیجئے ہر قسم کا غیب اللہ ہی جانتا ہے۔ (یونس :20) 3۔ اللہ تعالیٰ غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (السجدۃ:6) 4۔ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں ہی آسمان و زمین کے غائب کو جانتاہوں۔ (البقرۃ:33) 5۔ اے نبی ! فرما دیں اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لیے بہت سی بھلائی جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ (الاعراف :188)