سورة یوسف - آیت 84

وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور یعقوب (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا اے افسوس یوسف (علیہ السلام) پر ۔ اور اس کی آنکھیں گم سے سفید ہوگئی تھیں اور وہ بارے غم کے اپنے آپ کو گھونٹ لیا تھا (ف ٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 84 سے 86) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹوں سے یہ کہتے ہوئے رخ پھیر لیتے ہیں کہ میں تو صبر ہی کروں گا اور مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے یوسف، بنیامین اور یہودہ سے جلدہی ملائے گا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنا چہرہ بیٹوں سے پھیرتے ہوئے کہا کہ ہائے یوسف میں اس غم کی شکایت اپنے رب کی بارگاہ میں عرض کرتا ہوں یہی انبیاء (علیہ السلام) اور صابر لوگوں کا طریقہ ہے۔ اس غم میں ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے جسم کا ایک ایک عضو یوسف کی یاد میں غم سے چور چور ہوچکا تھا۔ بیٹے باپ کو تسلی دینے کی بجائے قسم اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو یوسف کا غم ہر وقت کھائے جا رہا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کی انتہائی غم کے وقت دعا : (اللّٰہُمَّ إِلَیْکَ أَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِیْ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ، وَہَوَإِنِیْ عَلَی النَّاسِ، یَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ، أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ، وَأَنْتَ رَبِّیْ.... فَلاَ أُبَالِیْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُکَ ہِیَ أَوْسَعُ لِیْ، أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلَحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنِیَا وَالْاٰخِرَۃِ) [ الرحیق المختوم] ” بار الہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری وبے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تو کمزور لوگوں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔۔ پس مجھے کوئی پروا نہیں لیکن تیری عافیت میرے لیے کافی ہے، میں تیرے چہرے کے جمال کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوجائیں اور جس سے دنیا اور آخرت کے مسائل حل ہوجائیں۔“ مسائل: 1۔ بیٹے کی جدائی ماں باپ کے لیے عظیم صدمہ ہوتا ہے۔ 2۔ حضرت یقوب (علیہ السلام) کی غم کی وجہ سے بینائی چلی گئی۔ 3۔ رنج وغم کی شکایت اللہ ہی سے کرنی چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے جو علم انبیاء (علیہ السلام) کو عطا کیا ہے وہ کسی اور کو عطا نہیں کیا۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) اپنا دکھ اور فریاد اللہ ہی کے حضور پیش کرتے تھے : 1۔ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بے قراری اور غم کی شکایت صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف :86) 2۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف :23) 3۔ ایوب (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے پروردگار ! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الانبیاء :83) 4۔ یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کو پکارا۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے اور میں ہی قصور وار تھا۔ (الانبیاء :87) 5۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء :89) 6۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اے رب ! بلاشبہ میں نے اپنے اوپر ظلم کیا لہٰذا مجھے معاف کردے۔ (القصص :16)