وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا ہم نے اسی حکم اور علم دیا ، اور اسی طرح ہم نیکوں کو جزا دیا کرتے ہیں ۔
فہم القرآن : (آیت 22 سے 23) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے گھر امور مملکت کی تربیت پاتے ہوئے نوجوان ہونا۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوان رعنا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل و دانش اور امور مملکت کی جان پہچان سے نوازا۔ جس کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) 23سال کے لگ بھگ عزیز مصر کے ہاں ٹھہرے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس عرصہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی لیاقت، دیانت اور احساس ذمہ داری سے عزیز مصر اور اس کے اہل خانہ اچھی طرح واقف ہوچکے تھے۔ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ سے کیوں نہ متاثر ہوتے جبکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں پرورش پا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ جس شخصیت کو اپنا رسول بنانا چاہتا ہے وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوا کرتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے کہ جونہی یوسف جوان ہوئے تو ہم نے اسے علم و حکمت سے نوازا۔ اس فرمان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے گھر ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ علم و حکمت اور امور مملکت کے مشاہدات کیے۔ مؤرخین نے عزیز مصر کی بیوی راعیل اور زلیخا لکھا۔ لیکن قرآن مجیدنے اس کی پردہ پوشی کے لیے نام نہیں لیا۔ جب یوسف (علیہ السلام) حسن و جمال اور عالم شباب کو پہنچے تو عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف کو برائی کے لیے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ نہ معلوم وہ کس کس انداز اور نخرے کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ورغلانے کی کوشش کرتی رہی۔ جب تمام کوششوں میں ناکام ہوئی تو اس نے آخری قدم اٹھاتے ہوئے ایک دن حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کسی بہانے اپنے شب خانہ میں بلایا۔ جونہی حضرت یوسف (علیہ السلام) اس جگہ پہنچے تو اس نے نامعلوم طریقے کے ساتھ اس کمرے تک پہنچنے والی راہداری اور اس کے ملحقہ کمروں کو مقفل کردیا۔ عزیز مصر کے محل کا نقشہ سمجھنے کے لیے آج کے بنگلوں اور محلات کے نقشوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جب اس نے ہر دروازہ مقفل کرلیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ہیجانی اور جذباتی انداز میں کہا کہ آجاؤ اب تو کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نگاہیں نیچی رکھتے ہوئے بڑے ہی وقار اور حیادار لہجے میں فرماتے ہیں کہ ” اللہ کی پناہ“ یعنی اللہ مجھے بچائے۔ جس نے مجھے بہترین قیام وطعام بخشا ہے۔ میں ایسی حرکت کیونکر کرسکتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو کامیابی نہیں دیتا۔ یہاں ظلم سے مراد اللہ تعالیٰ کی حد کو توڑنا ہے اور بدکاری کرنا ہے۔ بدکار ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حد کو توڑ کر ظلم کرتا ہے۔ دوسری طرف اپنی حیا کو تار تار کرتے ہوئے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ جس سے زانی اور زانیہ دونوں کے خاندانوں کے وقار پر دھبہ لگتا ہے۔ اکثر اوقات مال ضائع ہونے کے علاوہ قتل جیسے سنگین جرائم جنم لیتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس لیے بھی اس حرکت کو ظلم قرار دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی احسان فراموشی کے علاوہ عزیز مصر کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی کہ اس نے مجھ جیسے غلام کو بیٹوں کی طرح پالا اور میں غلام ہو کر اپنے آقا کی عزت کو تار تار کروں یہ بڑا ہوگا۔ جس سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ﴿إِنَّہٗ رَبِّیْٓ أَحْسَنَ مَثْوَایَ﴾[ یوسف :23] ” بے شک وہ میرا رب ہے۔ اس نے میرا ٹھکانہ اچھابنایا ہے۔“ رب سے مراد بعض مفسرین نے عزیز مصر لیا ہے۔ کیونکہ عربی میں یہ الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں جیسے رب البیت وغیرہ۔ اسی کے پیش نظر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عمومی زبان استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے رب یعنی عزیز مصر نے مجھے بہت بڑا مقام دیا ہے اگر میں اس کی اہلیہ کے ساتھ بدکاری کروں تو بہت بڑی زیادتی اور ظلم ہوگا۔ دوسرے اہل علم اس معنی کی نفی کرتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے شخص کو بھی ” میرا رب“ کے الفاظ نہیں کہہ سکتا۔ میرا ذاتی خیال بھی یہ ہے کہ پیغمبر کی شان اور اس کے عقیدہ کے خلاف ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو ” میرا رب“ کہہ۔ بے شک رب کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن نبی کے لائق نہیں کہ وہ ” اللہ“ کے سوا کسی اور کے لیے یہ لفظ استعمال کرے۔ لہٰذا حضرت یوسف کی مراد حقیقی رب تھا۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو علم و حکمت عطا فرمائی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو صلہ عطا فرماتا ہے۔ 3۔ یوسف (علیہ السلام) نے گناہ سے بچنے کے لیے اللہ سے پناہ طلب کی۔ 4۔ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ تفسیر بالقرآن : ظالم حقیقی کامیابی نہیں پایا کرتا : 1۔ بے شک ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (یوسف :23) 2۔ ظالموں کے لیے تباہی ہے۔ (نوح :28) 3۔ ظالموں کی بستی کو الٹا کر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ (العنکبوت :31) 4۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر :17) 5۔ ظالم کامیابی نہیں پائیں گے۔ (الانعام :21) 6۔ مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس :17) 7۔ ظالموں کا کوئی ولی اور مددگار نہیں ہوگا۔ (الشعراء :8) 9۔ قیامت کے دن ظالم لوگ کھلی گمراہی میں ہوں گے۔ (مریم :38) 8۔ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کاش ہم رسول کی راہ اختیار کرتے۔ (الفرقان :27)