وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ
اور اندھیرا پڑے اپنے باپ کے پاس روتے آئے ،
فہم القرآن : (آیت 16 سے 18) ربط کلام : برادران یوسف غلطی پر غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ویران کنویں میں پھینک کر۔ برادران یوسف روتے ہوئے دانستہ تاخیر سے عشاء کے وقت گھر آئے تاکہ ان کی من گھڑت کہانی پر والد کو یقین آجائے۔ یاد رہے کہ عشاء کا وقت مغرب کے بعد اچھی طرح اندھیرا چھا جانے سے لے کر آدھی رات تک شمار ہوتا ہے۔ برادران یوسف گھر داخل ہوتے ہی ہچکیاں لیتے اور زارو قطار روتے ہوئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کہتے ہیں۔ اباجان! ہم یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر کھیل کود میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں بہت دور نکل گئے۔ ہمارے پیچھے بھیڑئیے نے یوسف کو کھالیا۔ یہ حقیقت ہے مگر ہمارے سچا ہونے کے باوجود آپ ہم پر یقین نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضرت یوسف کی خون آلود قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دی۔ جس پر کسی جانور کا خون لگا رکھا تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ صورت حال دیکھ کر صرف اتنا ہی فرمایا۔ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس پر میں اللہ ہی سے مدد کا طلب گار ہوں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف کو اس کے بھائیوں کے سپرد کرتے ہوئے جس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا برادران یوسف نے پورے غورو خوض کے بعد سوچا چونکہ ہمارے والد کے دل میں بھیڑئیے کا یوسف کو کھانے کے بارے میں اندیشہ پختہ ہوچکا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی یہی بات ان کے سامنے کہنا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت یوسف کی قمیص کو کسی جانور کے خون کے ساتھ آلودہ کرلیا۔ گویا کہ انہوں نے من گھڑت کہانی کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے یکے بعددیگرے چار غلط اقدام کیے۔ 1۔ بلا وجہ رات تاخیر سے گھر آنا۔ 2۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کو کسی جانور کے خون کے ساتھ لت پت کرنا۔ 3۔ زار و قطار رونا اور مصنوعی ہچکیاں لینا۔ 4۔ باپ کے خدشے کے مطابق جھوٹی کہانی بنانا۔ تحقیق و تفتیش کی تاریخ میں یہ بات بڑی مسلمہ ہے کہ واردات کرنے والے شخص سے کوئی نہ کوئی ایسی غلطی یا کوتاہی رہ جاتی ہے جس سے جرم کا سراغ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ جسے تفتیشی زبان میں کہا جاتا ہے کہ چور کوئی نہ کوئی نشان چھوڑجاتا ہے۔ کہانی بیان کرنے سے پہلے ہی اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ کہا ہمارے سچا ہونے کے باوجود آپ ہماری بات پر یقین نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹا خون لگانے کے وقت وہ بھول گئے تھے۔ کہ قمیص کو مخصوص انداز میں پھاڑنا بھی چاہیے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص صحیح سالم دیکھی تو وہ فرمانے لگے کہ یہ کیسا بھیڑیا تھا؟ جس نے یوسف کو پھاڑ ڈالا مگر قمیص کو آنچ نہ آنے دی۔ ممکن ہے اس طرح ہوا ہو لیکن میرے خیال میں حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بھائیوں کا یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ برتاؤ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ جس بنا پر انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کے سپرد کرتے ہوئے اس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا کہ کہیں تمہاری غفلت کی وجہ سے بھیڑیا یوسف کو نقصان نہ پہنچائے۔ پھر جس انداز سے انہوں نے من گھڑت کہانی بیان کی اس سے ایک دانشور انسان کو حقیقت تک پہنچنے کے لیے کوئی خاص دشواری پیش نہیں آتی۔ کیونکہ قتل جیسا سانحہ رونما ہونے کے بعد مقتول کے قریبی اعزا و اقرباء کے رونے کا انداز اور ان کی طبیعت پر مرتب ہونے والے غم کے اثرات سے آدمی اچھی طرح اندازہ کرلیتا ہے کہ مقتول کے بارے میں رونے والے کے غم کی کیا کیفیت ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تو یوسف (علیہ السلام) کے باپ اور اللہ کے عظیم پیغمبر تھے۔ انہیں بات کی تہہ تک پہنچنے میں ذرا دیر نہ لگی فوراً فرمایا کہ تمہارے دلوں نے یوسف کے ساتھ زیادتی کرنے اور جھوٹی کہانی بنانے کو آسان بنا دیا ہے۔ کیونکہ بیٹوں نے اپنی طاقت پر ناز کرتے ہوئے یہ جرم کیا تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے نہایت ہی دانشمندی اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوان بیٹوں سے جھگڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذاحضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ” اللہ“ ہی سے مدد طلب کی۔ اس قسم کے حالات میں ایک دانشور باپ کو یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے ورنہ بدنامی کے ساتھ صورت حال اور گھمبیر ہوجایا کرتی ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) صبر جمیل کے ساتھ اس غم کو پی جاتے ہیں۔ صبر جمیل سے مراد ایسا صبر جس میں کسی قسم کا گلہ شکوہ نہ پایا جائے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (ﷺ) بِامْرَأَۃٍ تَبْکِی عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِی اللَّہَ وَاصْبِرِی قَالَتْ إِلَیْکَ عَنِّی، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیبَتِی، وَلَمْ تَعْرِفْہُ فَقِیلَ لَہَا إِنَّہُ النَّبِیُّ (ﷺ) فَأَتَتْ بَاب النَّبِیِّ (ﷺ) فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِینَ فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفْکَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الأُولَی) [ رواہ البخاری : باب زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر اختیار کر اس نے کہا تمھیں کیا جو مصیبت مجھے پہنچی ہے وہ آپ کو نہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا اسے کہا گیا کہ بے شک آپ نبی (ﷺ) تھے تو وہ آپ کے دروازے پر آئی تو کوئی دربان نہ پایا اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے نبی میں آپ کو پہچان نہیں سکی تھی آپ نے فرمایا صبر وہی ہوتا ہے جو صدمے کے آغاز پر کیا جائے۔“ مسائل: 1۔ مکارمجرم اکثر زیادہ رویا کرتے ہیں۔ 2۔ صبر بہترین عمل ہے اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تفسیر بالقرآن : صبر کی فضیلت اور اجر : 1۔ صبر بہترین عمل ہے اور اللہ ہی اس پر مدد کرے گا جو تم بیان کرتے ہو۔ (یوسف :18) 2۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153) 3۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 4۔ صبر کرنے والوں کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد :24) 5۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان :75) 6۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر :10)