فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر جب اسے لے گئے اور اس امر پر اتفاق کرلیا کہ اسے تاریک کنوئیں میں ڈال دیں ، اور ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو وحی بھیجی ، کہ تو ان کے اس کام سے (آئندہ کو) نہیں خبردار کرے گا ، اور وہ نہ جانیں گے (ف ٢) ۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مجبور ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں کے سپرد کرنا۔ اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا انہیں ویران اور گمنام کنویں میں پھینکنا۔ برادران جب یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اپنے ہدف کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے بالاتفاق یوسف (علیہ السلام) کو ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ اس موقع پر بعض مفسرین نے غیر مستند تاریخی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جونہی یوسف (علیہ السلام) کے برادر اپنی بستی سے دور ہوئے تو انہوں نے یوسف کو مارنا پیٹنا شروع کیا۔ یوسف زار و قطار روتے ہوئے کبھی ایک اور کبھی دوسرے بھائی کے ساتھ چمٹ جاتے مگر وہ ترس کھانے کے بجائے اپنے سے اگلے کی طرف دھکیل دیتا۔ ممکن ہے یہی کچھ ہوا ہو کیونکہ قرآن مجید کسی واقعہ کی غیر اہم جزئیات بیان نہیں کرتا۔ اس لیے سب سے بڑے اور آخری اقدام کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ انہوں نے جب یوسف کو ویران کنویں میں پھینک دیا تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وقت آئے گا کہ جو کچھ انھوں نے کیا اس کے بارے میں تم ضرور اور ہر صورت انھیں بتلاؤ گے۔ ہندو پاک کے معروف اہل قلم اور ریاست پٹیالہ کے سیشن جج قاضی سلیمان منصور پوری تفسیر سورۃ یوسف المسمٰی بہ الجمال والکمال میں ﴿لَتُنَبِّئَنَّھُمْ﴾ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا معنیٰ ہے۔ اے یوسف فکر نہ کر تو باعزت اس مصیبت سے نجات پائے گا۔ اور تجھے اعلیٰ منصب عطا کیا جائے گا۔ تیرے بھائی تیرے سامنے ذلیل ہو کر حاضر ہوں گے اور تجھے ان کے سامنے سب کچھ بیان کرنے کا موقع عنایت کیا جائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر کی مملکت کا حکمران بنایا۔ قحط سالی سے تنگ آکر امداد کے لیے برادران یوسف ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں معاف کرتے ہوئے، عزت و احترام سے نوازا۔ اس کی تفصیل آیت 89تا 92میں ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی۔ حالانکہ اس وقت حضرت یوسف کی عمر آٹھ، نو سال یا 16، 17سال کی بتلائی جاتی ہے۔ میرا قلبی میلان یہ ہے کہ حضرت یوسف کی عمرآٹھ یانو سال تھی۔ 16تا 17سال کا بچہ جوان یا جوانی کے بالکل قریب ہوتا ہے۔ بالخصوص جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر نامزد کرنا ہوتا ہے وہ صحت کے اعتبار سے اپنی عمر سے بہت زیادہ سمجھدار اور کافی حد تک جسمانی طور پر بڑا دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا نہایت چھوٹی عمر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلبی طور پر اطمینان بخشا اور فکری اعتبار سے انہیں پرسکون کردیا کہ تجھے گھبرانا نہیں چاہیے۔ وقت آنے پر سب کچھ تیرے سامنے کردیا جائے گا۔ وحی کی اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی سے جو کام لینا چاہتا ہے اس کے کرنے کا اس کے دل میں القاء کردیتا ہے۔ جس کی قرآن مجید کے حوالے سے دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔ اے انسان تیرے رب نے مکھی کی طرف وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں اور انگور کی بیلوں میں اپنا گھر بنائے پھر پھلوں سے رس چوس کر اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی ہوئی اپنے پیٹ سے مختلف رنگوں کا شہد نکالے جس میں لوگوں کے لیے شفاء رکھ دی گئی ہے۔ یقیناً اس میں غور کرنے والے لوگوں کے لیے راہنمائی کا سامان موجود ہے۔ (النحل : 68تا69) موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کی والدہ کی طرف وحی کی (یعنی القا کیا) کہ اسے دریا میں ڈال دے، اس پر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم موسیٰ کو آپ کی طرف لوٹائیں گے۔ اور اسے نبوت سے سرفراز کریں گے۔ ( القصص :7) مسائل: 1۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں نے اندھیرے کنویں میں پھینک دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ القا کے ذریعے جسے چاہے آگاہ فرماتا ہے۔