يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
مومنو ! صبر اور نماز سے قوت حاصل کرو ، بےشک خدا صابروں کے ساتھ ہے (ف ٢)
فہم القرآن : ربط کلام : ذکر اور شکر کی بہترین صورت نماز ہے۔ شکر سے اعراض اور نماز کا انکار کفر ہے۔ اگلی آیات میں شہادت اور مختلف قسم کی آزمائشوں کا آنا یقینی فرمایا ہے۔ لہٰذا آزمائشوں اور کفار کے پروپیگنڈہ سے گھبرانے کے بجائے پہلے نماز اور صبر کے ذریعے مدد مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبر ایک ایسی اخلاقی قدر اور قوت ہے جو انسان کی منفی قوتوں پر کنٹرول اور مثبت صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ان صلاحیتوں میں اضافہ بھی کرتی ہے۔ قرآن مجید نے صبر کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کی حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ گفتگو کے ضمن میں کئی بار یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ کچھ معاملات کی حکمت جاننے کے لیے ان کے ہمسفر ہوئے تو انہوں نے کئی بار فرمایا کہ جناب موسیٰ ! آپ میرے معاملات پر حوصلہ نہیں کر پائیں گے۔ کلیم اللہ نے کہا کہ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ میرے صبرکے بندھن ٹوٹنے نہ پائیں۔ گویا کہ صبر کا معنیٰ ہے اپنے آپ پر قابورکھنا اور مشکل کے وقت استقامت اختیار کرنا۔ تو اس طرح صبر اور استقامت کا تعلق آپس میں چولی دامن کا تعلق بنتا ہے۔ غریب آدمی صبر کا دامن چھوڑ دے تو وہ خود کشی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ جو ان کے اندر صبر کی قوت کمزور ہوجائے تو اس سے بے حیائی کی ایسی حرکات ثابت ہوتی ہیں کہ ساری زندگی اسے پچھتاوا رہتا ہے۔ صاحب اقتدار آدمی صبر سے تہی دامن ہو تو وہ اپنے وقت کا فرعون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یہی لوگ صبر وحوصلہ کا مظاہرہ کریں تو زندگی ان کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔ بہادر اور بااختیار شخص حوصلہ سے کام لے تو کمزوروں کے لیے اللہ کی رحمت ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے زندگی کے ہر موڑ پر صبر وحوصلے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی دستگیری کی خوشخبری دی ہے۔ صبر کے لیے آپ {ﷺ}کو یوں مخاطب کیا گیا : ﴿وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا﴾ [ المزمل :10] ” لوگوں کی دل آزار باتوں پر صبر کرتے ہوئے انہیں اچھے انداز سے چھوڑ دیجیے۔“ ﴿وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصَّابِرِیْنَ﴾ [ النحل :126] ” صبر کا رویّہ اختیار کرو یہ بہترین انجام کی ضمانت ہے۔“ ﴿اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ [ الزمر :10] ” صبر کرنے والوں کو ہی بغیر حساب کے پورا پورا اجر دیا جائے گا۔“ یہاں اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت کے حصول کے لیے دوسرا مؤثر ذریعہ نماز قرار دی گئی ہے۔ اگر آدمی نماز کو صحیح انداز میں ادا کرتے ہوئے یہ تصور قائم کرلے کہ میں مشفق ومہربان آقا کے حضور درخواست گزارہوں اور وہی میری روح کے کرب کو جانتا اور میرے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے تو انسان کا غم فوری طور پر ہلکا ہوجاتا ہے۔ اسی بنا پر رسول اللہ {ﷺ}فرمایا کرتے تھے : مجھے نماز میں سکون ملتا ہے اور آپ ہر مشکل وقت مصلّے کی طرف لوٹا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی زندگی کے نازک مراحل میں نماز کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت طلب کیا کرتے تھے۔ (1) (جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ )[ رواہ النسائی : کتاب عشرۃ النساء، باب حب النساء] ” نماز میں میری آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہے۔“ (2) (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار، باب أحادیث رجال من أصحاب النبی {ﷺ}] ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز : (3) (فَلَمَّا دَخَلَ أَرْضَہٗ رَاٰھَا بَعْضُ أَھْلِ الْجَبَّارِ أَتَاہُ فَقَالَ لَہٗ لَقَدْ قَدِمَتْ أَرْضَکَ امْرَأَۃٌ لَا یَنْبَغِیْ لَھَا أَنْ تَکُوْنَ إِلَّا لَکَ فَأَرْسَلَ إِلَیْھَا فَأُتِیَ بِھَا فَقَامَ إِبْرَاھِیْمُ إِلَی الصَّلَاۃِ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْہِ لَمْ یَتَمَالَکْ أَنْ بَسَطَ یَدَہٗ إِلَیْھَا قُبِضَتْ یَدُہٗ قَبْضَۃً شَدِیْدَۃً فَقَالَ لَھَا ادْعِی اللّٰہَ أَنْ یُطْلِقَ یَدِیْ وَلَا اَضُرُّکِ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فُقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَۃِ الْأُوْلٰی فَقَالَ لَھَا مِثْلَ ذٰلِکَ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ أَنْ یُطْلِقَ یَدِیْ فَلَکِ اللّٰہُ أَنْ لَّاأَضُرَّکِ فَفَعَلَتْ وَأُطْلِقَتْ یَدُہٗ وَدَعَا الَّذِیْ جَاءَ بِھَا فَقَالَ لَہٗ إِنَّکَ إِنَّمَا أَتَیْتَنِیْ بِشَیْطَانٍ وَلَمْ تَأْتِنِیْ بِإِنْسَانٍ فَأَخْرِجْھَا مِنْ أَرْضِیْ وَأَعْطِھَا ھَاجَرَ قَالَ فَأَقْبَلَتْ تَمْشِیْ فَلَمَّا رَاٰھَا إِبْرَاہِیْمُ {علیہ السلام}انْصَرَفَ فَقَالَ لَھَا مَیْھَمْ قَالَتْ خَیْرًا کَفَّ اللّٰہُ یَدَ الْفَاجِرِوَأَخْدَمَ خَادِمًا) [ رواہ مسلم : کتاب الفضائل، باب من فضائل إبراھیم الخلیل (علیہ السلام) ] ” جب ابراہیم اس جابر بادشاہ کی سرزمین میں داخل ہوئے تو بادشاہ کے کارندے نے انہیں دیکھ کر بادشاہ سے کہا کہ آپ کے علاقے میں ایک عورت آئی ہے جو صرف آپ کے پاس ہی ہونی چاہیے۔ بادشاہ نے اپنا اہلکار بھیج کر اسے منگوایاتو ابراہیم (علیہ السلام) نے نماز شروع کردی۔ حضرت سارہ[ جب اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن بادشاہ کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا گیا۔ اس نے حضرت سارہ[ سے کہا کہ : اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ میرا ہاتھ چھوڑ دیا جائے۔ میں دوبارہ یہ حرکت نہیں کروں گا۔ ہاتھ چھوڑدیا گیا تو اس نے دوبارہ دست درازی کی کوشش کی لیکن ہاتھ پہلے سے زیادہ سختی سے پکڑ لیا گیا۔ پھر اس نے ہاتھ چھڑانے کے لیے اللہ سے دعا کروائی اور وعدہ کیا کہ اب ایسے نہ کروں گا تو ہاتھ چھوڑ دیا گیا۔ تیسری دفعہ پھر اس نے ہاتھ بڑھایا تو ہاتھ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا گیا۔ اب پھر اس نے حضرت سارہ[ سے دعا کے لیے کہا کہ اللہ کی قسم! میرا ہاتھ چھوٹ جائے تو میں تیرے ساتھ زیادتی نہیں کروں گا۔ حضرت سارہ[ کی دعا پر ہاتھ چھوڑ دیا گیا۔ بادشاہ نے اس اہلکار کو بلاکر کہا کہ : تو میرے پاس انسان کے بجائے کوئی شیطان لے آیا ہے۔ اسے میری سرزمین سے جانے دیجیے اور اسے ہاجرہ بھی ساتھ دے دیجیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب سارہ[ کو آتے ہوئے دیکھا تو نماز کے بعد خیریت پوچھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس فاجر کے ہاتھوں کو روک لیا اور میں سلامت رہی، اس نے ایک خادمہ خدمت کے لیے مجھے دی ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء] ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم {ﷺ}نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ مستقل مزاج اور صبر کرنے والوں کی دستگیری فرماتا ہے۔ تفسیربالقرآن : صبر کی اہمیت اور اجر : 1۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف :35) 2۔ نبی {ﷺ}کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 3۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :153) 4۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد :24) 7۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان :75) 8۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر :10 )