قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
کہا اے صالح (علیہ السلام) اس سے پہلے تو ہم میں تجھ سے امیدیں کی جاتی تھیں ، کیا تو ہمیں ان کی عبادت سے جنہیں ہمارے بڑے پوجتے تھے ، منع کرتا ہے ‘ اور جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے (ف ٣) ۔ اس میں ہمیں ایسا شک ہے کہ دل نہیں ٹھہرتا ،
فہم القرآن : (آیت 62 سے 63) ربط کلام : قوم کا حضرت صالح (علیہ السلام) سے مکالمہ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنے پیغمبر جلوہ گر فرمائے ہیں وہ حسن و جمال، سیرت اور لیاقت کے اعتبار سے بچپن میں ہی اپنی قوم میں منفرد اور ممتاز ہوا کرتے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) بھی اپنی قوم میں ہر حوالے سے ممتاز اور منفرد تھے۔ اس بنا پر قوم ان کے بارے میں بڑی توقعات رکھتی تھی۔ لیکن حضرت صالح (علیہ السلام) نے جب انہیں ان کے طریقہ عبادت سے منع کیا اور فرمایا کہ تم بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بلاواسطہ اس کی عبادت کرو اور براہ راست اس سے مانگا کرو۔ قوم نے اس سیدھے اور صحیح طریقے کو اپنانے کی بجائے ان سے کہا کہ ہمیں تو تجھ پر بڑی توقعات اور اعتماد تھا کہ تم ہم میں اتحاد کی علامت اور ہماری دینی اور دنیوی ترقی کا ذریعہ بنو گے۔ لیکن تو نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور ہماری توقعات کے خلاف طرز عمل اختیار کرلیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے طریقہ عبادت کو چھوڑ دیں۔ ہمیں تو تیری دعوت اور عقیدہ کے بارے میں تردُّد ہے۔ اس پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہیں اس دعوت کے بارے میں کسی تردد اور شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے رب نے مجھ پر کرم فرما کر مجھے اپنا رسول منتخب کیا ہے اور میں تمہیں اپنے رب کی طرف سے ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھی یہ دعوت پیش کرتا ہوں۔ لیکن قوم نے صحیح طریقہ سے عبادت اپنانے کی بجائے حضرت صالح (علیہ السلام) پر ہر طرف سے دباؤ ڈالا کہ تمہیں اس دعوت سے دستکش ہوجانا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اس دباؤ کے جواب میں فرمایا کہ اگر میں دعوت توحید کو چھوڑ دوں تو یہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ بلکہ تم مجھے ناقابل تلافی نقصان میں ڈال دو گے۔ اگر میں ایسا کروں تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کون میری مدد کرے گا؟ قوم ثمودنے حضرت صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کی جب انہیں صالح (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں میں تمہارے لیے ایک امین رسول ہوں لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں تم سے اس کام کا کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم اسی طرح چھوڑ دیے جاؤ گے ان باغات، چشموں، کھیتوں، اور کھجوروں میں جن کے خوشے بہت ملائم ہیں اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے ہو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے گزرنے والوں کی اطاعت نہ کرو جو ملک میں فسادپھیلاتے ہیں اور اصلاح کا کام نہیں کرتے۔ کفار کے پاس حضرت صالح (علیہ السلام) کے دلائل کے مقابلہ میں اس کے سوا کوئی بات نہ تھی کہ ہم اپنے والدین کے طرز زندگی اور طریقہ عبادت کو تیرے کہنے پر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ دراصل یہی وہ بہانہ ہے جس کو لوگ مختلف الفاظ میں بزرگوں کے نام پر پیش کرتے آرہے ہیں جس کو مذہبی لوگ آئمہ کی تقلید کا نام دیتے ہیں۔ جس کا قرآن مجید نے ایک موقعہ پر یہ جواب دیا ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تم اس بات کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے۔ یہ کہتے ہیں ہم تو اس طریقہ پر چلیں گے جس پہ اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔ اگرچہ ان کے آباؤ اجداد دین کے بارے میں سمجھ اور ہدایت نہ رکھنے والے ہوں۔ تب بھی یہ ان کے راستے پر چلتے رہیں گے؟ مسائل : 1۔ معبودان باطل کی عبادت سے روکنا مشرکین کو ناگوار گزرتا ہے۔ 2۔ انبیاء (علیہ السلام) اللہ کے سوا کسی کو مددگار نہیں سمجھتے تھے۔ 3۔ انبیاء ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلائل لے کر آتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : تقلید آباء پر اصرار : 1۔ کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباء کرتے رہے ہیں۔ (ھود :61) 2۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ:104) 3۔ جب قرآن کی طرف بلایا جاتا ہے کہتے ہیں ہم اپنے آباء کی پیروی کریں گے۔ (لقمان :21) 4۔ جب انہیں قرآن کی پیروی کے لیے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں باپ دادا کافی ہیں۔ (البقرۃ:170)